
12/11/2024
سموگ کا آغاز لندن سے ہوا تھا‘ لوگ 5 دسمبر 1952ءکی صبح اٹھے توشہر گہرے سیاہ دھوئیں میں ڈوب چکا تھا‘ ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہیں دے رہا تھا‘ حد نظر صفر ہو چکی تھی‘ گاڑیاں گاڑیوں کو نظر نہیں آ رہی تھیں‘ ٹرین ڈرائیور پٹڑی نہیں دیکھ پا رہے تھے‘ پائلٹس کو رن وے نظر نہیں آ رہا تھا‘ پورا شہر دھند میں گم تھا‘ شام کے وقت پتہ چلا یہ دھند دھند نہیں یہ عذابہے‘ یہ گاڑھا سیاہ دھواں ہے‘ یہ دھواں اگلے دن چار ہزار لوگوں کی جان لے گیا‘ لوگ کھانس کھانس کر دم توڑنے لگے‘ لندن کی سماجی زندگی رک گئی‘ ٹریفک بند ہو گئی‘ ٹرینیں معطل ہو گئیں‘ فلائیٹس منسوخ ہو گئیں‘ دفتروں اور سکولوں میں چھٹی ہو گئی‘ شاپنگ سنٹرز بند ہو گئے اور لوگوں نے گھروں سے باہر نکلنا ترک کر دیا‘ شہر میں سناٹا تھا‘ قبرستان بھر چکے تھے اور ہسپتالوں میں مردے اور بیمار دونوں ایک بیڈ پر پڑے تھے‘ یہ عذاب پانچ دن جاری رہا‘
نو دسمبر کی رات بارش شروع ہوئی اور فضا آہستہ آہستہ دھل گئی لیکن اموات کا سلسلہ جاری رہا‘ دسمبر کے آخر تک لندن کے بارہ ہزار لوگ انتقال کر چکے تھے جبکہ ڈیڑھ لاکھ لوگ دمے‘ آشوب چشم‘ ٹی بی اور نروس بریک ڈاﺅن کا شکار تھے‘ ماحولیات کے ماہرین نے تحقیقات شروع کر دیں‘ پتہ چلا 5 سے 9 دسمبر کے دوران لندن کی فضا میں روزانہ ہزار ٹن سموک پارٹیکلز پیدا ہوتے رہے‘ ان میں 140 ٹن ہائیڈرو کلورک ایسڈ‘ 14 ٹن فلورین کمپاﺅنڈ اور 370 ٹن سلفر ڈائی آکسائیڈ شامل ہوتی تھی‘ یہ تمام مادے صحت کےلئے انتہائی مضر تھے‘ ماہرین نے سوچنا شروع کیا ”یہ تمام پارٹیکلز آئے کہاں سے تھے“ پتہ چلا یہ ساڑھے سات سو سال کی غلطیوں کا دھواں ہے‘ یہ سلسلہ 1200ءمیں شروع ہوا تھا‘ ساڑھے سات سو برسوں میں لندن کی آبادی میں دس گناہ اضافہ ہو گیا‘ جنگل کٹ گئے‘ ندیاں اور جھیلیں ختم ہوگئیں‘ گاﺅں دیہات شہر میں آ گئے‘ کھیت کھلیانوں کی جگہ ہاﺅسنگ سوسائٹیاں بن گئیں‘ صنعتی انقلاب آیا‘ شہر میں ہزاروں فیکٹریاں لگ گئیں‘ بجلی ایجاد ہوئی‘ کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ لگ گئے‘ ٹرین سروس شروع ہوئی‘ ٹرام آئی‘ گاڑیاں آئیں‘ تعمیرات شروع ہوئیں‘ دوسری جنگ عظیم نے بھی دھواں اڑایا اور آخر میں لوگ بھی آلودگی پھیلانے لگے چنانچہ لندن کی فضا آلودہ ہوتی چلی گئی‘ ہوا میں آکسیجن کم ہو گئی‘
یہ سلسلہ چلتے چلتے 1952ءتک پہنچ گیا‘ سردی شروع ہوئی‘ لوگوں نے اپنی انگیٹھیوں میں کوئلہ جلایا‘لاکھوں ٹن دھواں پیدا ہوا‘ یہ دھواں ساڑھے سات سو سال کی آلودگیوں میں ”مکس اپ“ ہوا‘ دسمبر کی دھند میں ملا اور گہری‘ دبیز اور سیاہ گیس میں تبدیل ہو@ گیا اور یہ گیس پانچ دن شہر کے اندر گھومتی پھرتی رہی‘
ماہرین نے اس دھند ک