
03/06/2025
چھوٹے بچوں کے لیے نیند کے ڈراپس !
میلاٹونن ایک قدرتی ہارمون ہے جو انسانی دماغ کے ایک نہایت چھوٹے مگر اہم غدود "پائنئیل گلینڈ" (Pineal Gland) سے خارج ہوتا ہے۔ یہ ہارمون بنیادی طور پر جسم کی قدرتی نیند اور بیداری کے نظام یعنی "سرکیڈین ردھم" کو منظم کرتا ہے۔ میلاٹونن کی مقدار رات کے وقت بڑھ جاتی ہے، جس سے دماغ کو یہ اشارہ ملتا ہے کہ اب آرام کا وقت ہے، جبکہ دن کے وقت اس کی مقدار تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
ادویاتی شکل میں دستیاب میلاٹونن، جیسے کہ اورامل ڈراپس، میں یہی ہارمون شامل ہوتا ہے جو مخصوص حالات میں نیند کے مسائل کے حل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ دوا بالغ افراد اور کچھ مخصوص بچوں جیسے کہ آٹزم یا ADHD (توجہ کی کمی اور بیش فعالی) کے شکار بچوں کے لیے تجویز کی جاتی ہے، خاص طور پر جب نیند نہ آنے یا نیند میں خلل جیسے مسائل درپیش ہوں۔ اس کے علاوہ، طویل فضائی سفر کے بعد ہونے والے "جیٹ لیگ" میں بھی میلاٹونن کو مؤثر پایا گیا ہے۔
جہاں تک نقصان کی بات ہے، بالغ افراد یا بڑے بچوں میں اس دوا کے فوری طور پر کوئی سنگین مضر اثرات دیکھنے میں نہیں آئے، لیکن چھوٹے بچوں کے لیے اس کے طویل مدتی اثرات پر تحقیق محدود ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ میلاٹونن کا طویل استعمال بچوں کے تولیدی نظام کی نشوونما پر اثرانداز ہو سکتا ہے، لیکن اس حوالے سے ابھی حتمی شواہد موجود نہیں۔
اکثر والدین یہ سوال کرتے ہیں کہ آیا دو یا تین ماہ کے شیرخوار بچوں کو اورامل ڈراپس دینا مناسب ہے یا نہیں۔ سائنسی لحاظ سے دیکھا جائے تو پیدائش کے ابتدائی چند مہینوں میں بچے کا نیند اور بیداری کا قدرتی نظام (sleep-wake cycle) ابھی تشکیل پا رہا ہوتا ہے۔ اس مرحلے پر بچے کا دماغ دن اور رات کے فرق کو مکمل طور پر محسوس نہیں کر پاتا۔ لہٰذا ایسے نوزائیدہ کو میلاٹونن جیسا ہارمون دینا نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ غیر فطری بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
بہتر یہ ہے کہ بچوں کے نیند کے مسائل کو سب سے پہلے ماحول کی بہتری، مخصوص نیند کے معمولات، اور سلیپ ٹریننگ کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ مثلاً رات کے وقت روشنی کم کرنا، ٹی وی بند کرنا، شور شرابے سے گریز کرنا اور خود والدین کا موبائل فون استعمال نہ کرنا ایسے اقدامات ہیں جو بچے کو نیند کے لیے تیار کرتے ہیں۔ اگر ان تدابیر کے باوجود نیند کا مسئلہ برقرار رہے اور بچہ کسی میڈیکل حالت میں مبتلا ہو تو پھر ماہر اطفال سے مشورہ لے کر دوا کا استعمال سوچا جا سکتا ہے۔
آخر میں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ معلومات صرف رہنمائی کے لیے فراہم کی گئی ہیں اور کسی بھی دوا کے استعمال سے پہلے مستند ڈاکٹر سے مشورہ ضروری ہے۔ فیس بک یا سوشل میڈیا پر کسی بھی قسم کی پوسٹ یا تحریر کو مکمل علاج کا متبادل نہ سمجھا جائے۔ڈاکٹر حفیظ الؔرحمٰن چھینہ چائلڈ سپیشلسٹ