15/06/2025
ڈاکٹروں کی گرفتاری کے عدالتی حکم کے بعد پیدا صورتحال، بطور معاشرہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟
حارث قدیر
ضلعی فوجداری عدالت راولاکوٹ نے گزشتہ روز 14جون کو فضا خورشید کیس میں شیخ زید ہسپتال راولاکوٹ کے طبی عملے کے 5اراکین کی درخواست ضمانت قبل از گرفتاری منسوخ کرتے ہوئے گرفتاری کا حکم دیا، جبکہ 3اراکین کی ضمانت کی توثیق کر دی۔ ردعمل میں شیخ زید ہسپتال کے تمام ڈاکٹروں نے اجتماعی طور پر استعفیٰ دیتے ہوئے راولاکوٹ میں سرکاری یا نجی ہسپتالوں میں طبی خدمات سرانجام دینے سے انکار کر دیا۔
ڈاکٹروں کا موقف تھا کہ ایسی کیفیت میں وہ طبی خدمات سرانجام نہیں دے سکتے کہ جب ان کے سر پر قتل، اقدام قتل، قتل بالسبب، یا قتل خطا کے فوجداری مقدمات میں گرفتاری کی تلوار لٹکتی رہے۔ ڈاکٹروں کا خیال یہ ہے کہ اس کیس کی وجہ سے اب راستہ ہموار ہو گیا ہے کہ ڈاکٹر کے قصور کا تعین کرنے سے قبل ہی اس کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے اسے قید و بند کا شکار بنایا اور معاشرے میں اسی طرح نشان عبرت بنایا جا سکتا ہے، جیسے وہ عادی جرائم پیشہ مجرم ہو۔
دوسری جانب فضا خورشید کے ورثاء نے اس فیصلے کو انصاف کی فتح اور خوش آئند قرار دیا ہے۔
مقدمہ کے محرکات اور تفصیل
یہ مقدمہ 6ستمبر2024کو درج کیا گیاتھا۔ ایف آئی آر کے مطابق 5ستمبر کو فضا خورشید نامی 14/15سالہ مریضہ کو اس کی والدہ ہسپتال لائیں۔ اسے موشن/دست لگے ہوئے تھے۔ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹروں نے اسے کوئی انجیکشن لگایا، جس کی وجہ سے اس کی طبیعت مزید بگڑ گئی۔ اسے وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا، لیکن وہ جانبر نہ ہو سکی اور اس کی موت واقع ہو گئی۔ ایف آئی آر میں کسی ڈاکٹر یا نرس کو نامزد نہیں کیا گیا، تاہم یہ بتایا گیا کہ انہیں دیکھنے پر بچی کی والدہ انہیں شناخت کر سکتی ہیں۔ ایف آئی آر زیر دفعہ 22پی سی درج کی گئی۔
ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ذمہ دار ڈاکٹروں کے تعین، گرفتاری و تفتیش مقدمہ کے لیے 7ستمبر کو ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کی زیر سرپرستی انکوائری کمیٹی قائم کی گئی، بعد ازاں کمیٹی کی رپورٹ پر ورثاء نے عدم اعتماد کیا۔ سٹاف نرسوں نے بھی کمانڈنٹ شیخ زید ہسپتال کو ایک درخواست دی، جس میں یہ موقف اپنایا گیا کہ انکوائری کمیٹی کی اب تک کی کارروائی سے عیاں ہے کہ کمیٹی جانبدار ہے۔ اس لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔ ورثاء نے بھی جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا ہی مطالبہ کیا۔
ڈسٹرکٹ بار راولاکوٹ (وقت) نے بھی 9ستمبر کو اس معاملے پر ایک قرارداد کے ذریعے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا مطالبہ کیا۔ 12ستمبر کو انیسہ عشیر نامی سٹاف نرس نے ایک بیان حلفی میں شیخ زید ہسپتال میں ڈاکٹروں کے مریضوں سے رویے، مذکورہ واقعہ میں ڈاکٹروں کی غفلت کی گواہی دے اور یہ بیان حلفی مذکورہ سٹاف نرس نے چیئرمین انکوائری کمیٹی کو دینے کے ساتھ ساتھ خود ہی سوشل میڈیا پر بھی اپ لوڈ کر دیا۔ مذکورہ بیان حلفی میں ہاؤس آفیسرز اور سٹاف نرسوں کے مابین چلنے والی اندرونی لڑائی کا عنصر یا ذاتی عناد بھی صاف دیکھا جا سکتا ہے۔
18ستمبر کو ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عاصم ارشاد ایڈووکیٹ اور دیگر عہدیداران نے ایک اور قرارداد جاری کی، جس میں سٹاف نرس کے بیان حلفی کو بنیاد بناتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ بھی کیا اور شیخ زید ہسپتال کے عملے اور بالخصوص ڈاکٹروں پر شدید تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا۔ قرارداد میں شیخ زید ہسپتال میں سہولیات کے فقدان پر بھی احتجاج ریکارڈ کروایا گیا اور اہم مشینری فعال کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
اس دوران احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے، جن میں اہلیان کھائی گلہ، کوئیاں کے علاوہ ڈسٹرکٹ بار نے بھی بھرپور حصہ لیا۔ سیاسی و سماجی تنظیموں نے بھی فضا خورشید کو انصاف مہیا کرنے کامطالبہ کیا۔ انکوائری کمیٹیوں پرعدم اعتماد کے بعد جوڈیشل کمیشن سینئرجج ارباب اعظم کی سربراہی میں تشکیل تو دیا گیا، لیکن تاحال اس جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آسکی۔
21دسمبر2024کو درخواست زیر دفعہ22-Aدائر کی گئی۔ اس درخواست میں بھی موقف اپنایا گیا کہ ایک ملزمہ نے بیان حلفی کے ذریعے اقبال جرم کر لیا ہے اور خود ہی بیان حلفی کی تشہیر بھی کر دی ہے۔ گواہان کے ذریعے ملزمان کی شناخت اور دیگر کارروائی بھی مکمل ہو گئی ہے لیکن نہ تو ایف آئی آر کے مطابق ملزمان کو گرفتار کیاگیا ہے اور نہ ہی انہوں نے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کی ہے۔ درخواست میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر لائی ہی نہیں گئی، الٹا ورثاء پر عدم اعتمادکا جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔ درخواست میں یہ موقف بھی اپنایا گیا کہ ایف آئی آرمیں دفعات کی ایزادگی ہونی چاہیے، جو دفعہ لگائی گئی ہے وہ ناکافی ہے۔
13مارچ2024کو سنائے گئے فیصلے میں عدالت نے ایف آئی آر میں ایزادگی کے حوالے سے تو کوئی تذکرہ نہیں کیا، البتہ ایف آئی آر کے مطابق ملزمان کو گرفتار کر کے عدالت پیش کرنے کا حکم دیا گیا۔
عدالتی حکم کے بعد رواں سال اپریل کی مختلف تاریخوں میں شیخ زید ہسپتال کے عملہ کے 8افراد نے ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستیں دیں۔ ضلعی فوجداری عدالت نے ہفتے کے روز اپنے فیصلے میں ملزمان تہمینہ، نادر اور فرزانہ کی ضمانت کی توثیق کی، جبکہ دیگر 5ملزمان کی درخواست ضمانت مسترد کر دی۔ عدالت میں موجود ڈاکٹر آمنہ نواز، ڈاکٹر آمرزش لیاقت اور سٹاف نرس انیسہ عشیر کو موقع سے گرفتار کر لیا گیا، جبکہ ڈاکٹر فریال اور ڈاکٹر طیبہ عدالت میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے گرفتار نہیں ہو سکیں۔یہاں یہ واضح رہے کہ 22-Aکی درخواست اور ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستوں پر سماعت سیشن جج یوسف ہارون نے کی ہے۔
سیاسی و سماجی ردعمل
اس واقعے نے معاشرے کی گراؤٹ، پسماندگی اور جہالت کو بری طرح سے بے نقاب کر دیا ہے۔ ریاست، ریاستی اداروں اور اس نظام پر عدم اعتماد اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ کسی بھی واقعے یا حادثے کے بنیادی محرکات کو دیکھے بغیر ایک مہم شروع کر دی جاتی ہے۔ سیاست سوشل میڈیا ٹرینڈز کا شکار ہو گئی ہے، معاشرے کی قیادت کرنے والے عناصر انتہائی سطحی، عامیانہ، جعل سازی پر مبنی اور موقع پرستی پر مبنی موقف اپنانے میں کوئی شرم اور عار محسوس نہیں کرتے۔ احتساب کا مطالبہ ہر شخص کر رہا ہے، لیکن یہ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اس کا اپنا بھی احتساب ہو۔ جھوٹے،جعل ساز، ٹھگ، ملاوٹ کرنے والے، کرپشن، لوٹ مار، ناجائز منافع خوری میں لت پت معاشرہ ہر ایک کو برا بھلا کہتا ہے، لیکن نظام انصاف سے لے کر صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ، تجارت تک کوئی ایک شعبہ بھی مثالی نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹروں کی گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پرایک یلغار شروع ہو گئی اور ڈاکٹروں کو قاتل اور قصائی اور نہیں معلوم کیا کیا کہہ دیا گیا۔ ڈاکٹروں کے مستعفی ہونے پر یہ موقف اپنایا گیا کہ فوری ان کے استعفے منظور کر لیے جائیں اور نئی بھرتیاں کی جائیں۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ نئی بھرتیوں کے لیے کیا خلاء سے کوئی مخلوق امپورٹ کی جائے گی؟ کیا اس معاشرے میں صرف ڈاکٹروں کے نااہل ہونے کی وجہ سے نظام صحت میں خرابیاں ہیں؟کسی نے یہ معلوم کیا کہ صحت پر کتنا بجٹ خرچ ہوتا ہے اور جس راولاکوٹ میں یہ حادثہ پیش آیا وہاں سول ہسپتال کیوں 76سال میں تعمیر نہ ہوسکا؟
ورثاء کا دکھ
جن ورثاء کی بچی ہسپتال میں دوران علاج فوت ہو گئی، ان کا انصاف مانگنا نہ صرف جائز ہے، بلکہ اس حق کو کوئی بھی ان سے چھین نہیں سکتا۔ ہر فرد کو ان کا نہ صرف ساتھ دینا چاہیے، بلکہ بہرصورت یہ واضح ہونا چاہیے کہ فضاء خورشید کی موت کی وجہ کیا تھی اور اس کا ذمہ دار کون ہے۔تاہم یہ سوال بھی سب کے سامنے ہے کہ طبی غفلت کا تعین کرنے کے لیے اس خطے کے حکمرانوں نے کون سا میکنزم وضع کر رکھا ہے۔ اگر اس طرح کا کوئی حادثہ، یا واقعہ ہوتا ہے تو اس کے لیے کوئی ریگولیٹری اتھارٹی، کوئی چیک اینڈ بیلنس کا نظام، کوئی شفاف تحقیقات کا میکنزم تشکیل دیا بھی گیا ہے یا نہیں؟
اس لیے یہاں یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ اگرفضاء خورشید کو انصاف دلانے کی کوشش میں کسی بے گناہ کو ناحق سزا دے دی گئی تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا۔ اس کو انصاف پھر کون فراہم کرے گا۔ انصاف کی فراہمی میں سب سے اہم چیز ہوتی بھی یہی ہے کہ جس نے جرم کیا ہے اس کا تعین انتہائی احتیاط سے کیا جائے۔ جب تک کسی پر جرم ثابت نہیں ہوجاتا، وہ ملزم رہتا ہے، اسے کوئی مجرم نہیں کہہ سکتا۔ تاہم ان انسانی حقوق کو مقدم رکھنے کے لیے بھی کوئی میکنزم موجود نہیں ہے، یا اگر ہے تو اس پر کوئی دھیان دینا گوارہ نہیں کر رہا ہے۔ یوں نہ صرف فضاء خورشید کو انصاف دلانا ضروری ہے، بلکہ کیس کو مثال بنا کر طبی غفلت اور اس کی سزا و جزاء کے تعین کے لیے نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ وکلاء گردی میں ان تمام پہلوؤں کو نظر انداز کر کے محض ہیرو بننے کی کوشش زیادہ نمایاں نظر آرہی ہے۔
نظام صحت اور ڈاکٹروں کے رویے
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے 264ارب روپے کے بجٹ میں 17ارب روپے صحت کے لیے مختص ہیں، جن میں سے محض 3ارب روپے ترقیاتی بجٹ ہے، جس میں سے اکثریتی بجٹ مرمتی وغیرہ پر ہی خرچ ہوتا ہے۔ آبادی کے تناسب سے ہسپتالوں اور بنیادی مراکز صحت کی شدید قلت ہے۔ راولاکوٹ جیسے ڈویژنل ہیڈکوارٹر میں ایک دہائی سے زائد عرصے سے ہڑتالوں اور احتجاج کے باوجود ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال زیر تعمیر ہے۔ 43لاکھ کی آبادی پر 4916ڈاکٹرز تعینات ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے معیار کے مطابق ایک ہزار آبادی پر ایک ڈاکٹر کی تعیناتی ضروری ہے، کئی ملکوں میں ایک ہزار افراد پر 7سے 8 ڈاکٹر بھی تعینات ہیں۔ تاہم پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں ایک ہزار افراد پر 0.2ڈاکٹر تعینات ہیں، یعنی ایک لاکھ آبادی کے لیے 20ڈاکٹر موجود ہیں۔
اس کے علاوہ ہسپتالوں میں امراض کی تشخیص کے لیے لیبارٹریوں اور دیگر مشینری کا شدید فقدان ہے۔ اگر کسی ہسپتال میں مشینری موجود بھی ہے تو وہ قابل رفتار نہیں ہے۔
ڈاکٹروں کے رویے اور لوگوں کے اعتراضات
جب ہسپتال اور ڈاکٹرآبادی کے تناسب کے مطابق نہ ہوں، مرض کی تشخیص کے لیے ٹیسٹ کرنے کی سہولیات میسر نہ ہوں، نہ ہی کوئی انفراسٹرکچر میسر ہو تو پھر جب ایک ڈاکٹر کے پاس روزانہ کی بنیاد پر 100سے200مریض چیک اپ کے لیے آئیں گے، تو وہ کس قدر بہتر رویے سے علاج کر سکتا ہے۔ عالمی سطح پر ایک ڈاکٹر روزانہ 10سے15مریضوں کا معائنہ کرتا ہے، جبکہ یہاں ایک ڈاکٹر کے ذمے 5ہزار افراد ہیں، جن میں سے روزانہ کی بنیاد پر اسے درجنوں مریضوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر مریض کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے ترجیح دی جائے، اس کے علاوہ جب رش زیادہ ہوتا ہے تو بدانتظامی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سماجی دباؤ اور مسائل کی وجہ سے مریض اور اس کے ساتھ آئے اٹینڈنٹ کے رویے بھی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر سے زیادہ ڈاکٹر بن جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بھی رویوں میں سختی اور مسائل پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے ہی تجربات پر لوگوں کے ڈاکٹروں پر عدم اعتماد کی وجہ بنتے ہیں۔ جو سہولیات حکومت کو دینی چاہئیں، ان کی طرف عام آدمی کی توجہ کم جاتی ہے، اور جن ڈاکٹروں اور نرسوں کے ساتھ ان کا واسطہ براہ راست پڑتا ہے، وہ انہی کو سب مسائل کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ تاہم سیاسی، سماجی کارکنوں اور قانون پڑھنے والوں کو کم از کم اس حوالے سے بنیادی تعلیم ضرور حاصل کرنی چاہیے۔
شیخ زید ہسپتال راولاکوٹ میں اضافی مسئلہ ٹیچنگ ہسپتال بننے کے بعد بھی شروع ہوا ہے۔ ماضی میں ڈاکٹر نہ ہونے کے برابر تھے اور نرسنگ سٹاف کی بادشاہت ہوا کرتی تھی، جو مریضوں سے دیکھ ریکھ کے نام پر روزانہ کی بنیاد پر بھاری کمائی بھی کر لیتے تھے۔ تاہم ٹیچنگ ہسپتال بننے کے بعد ینگ ڈاکٹرز کی ایک نئی پرت ہسپتال میں انڈکٹ ہوئی، جو سیکھنے کی کوشش میں بھی مریضوں پر زیادہ توجہ دینے لگی اور نرسنگ سٹاف کی کمائی پر اثر پڑا، ساتھ ہی اثرورسوخ بھی متاثر ہوا، جس کے بعد ایک چپقلش موجود ہے۔
صحت کا کاروبار اور ادویات کے ٹھیکے
جہاں نظام صحت کو ریگولیٹ کرنے کے لیے کوئی خودمختار ریگولیٹری اتھارٹی قائم نہیں کی جا سکی، وہیں صحت کے کاروبار کو بھی سرکاری سطح پر فروغ دینے کی پالیسی اپنائی گئی۔ صحت جیسی بنیادی سہولت کو جب کاروبار کا درجہ دیا جائے گا تو پھر دوسرے لفظوں میں انسانی جانوں سے کھیلنے کی راہ ہموار کرنے کے عمل کی ریاستی سرپرستی کی جائے گی۔ اس کے علاوہ دوا ساز کمپنیوں کے مارکیٹنگ سٹاف دن بھر ڈاکٹروں کو نسخے لکھنے کے عوض مراعات کے مختلف پیکیج لیے ان کے آگے پیچھے ہوتے ہیں۔ اکثر نجی ہسپتال بھی دوا ساز کمپنیوں کے ہی فنڈز سے تعمیر کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دواساز کمپنیوں کی ایماء پر غیر ضروری دوائیں تجویز کرنے کے عمل میں پاکستان کو دنیا میں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ یہی کیفیت اس کے زیر انتظام علاقوں کی بھی ہے۔ جب تک صحت کے کاروبار کا خاتمہ نہیں ہوتا، سرکاری سطح پر جدید ترین صحت کی سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں،ادویات کی خریداری ریاستی سرپرستی میں نہیں ہوتی اور خودمختار ریگولیٹری اتھارٹیز کے ذریعے نگرانی کا میکنزم نہیں بنایا جاتا، تب تک یہ صورتحال بہتر ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ایسے میں محض ڈاکٹروں کو نفرت اور حقارت کا شکار بنایا جائے گا تو پھر جو صحت کی سہولیات میسر ہیں، وہ بھی نہیں بچیں گی۔ اس لیے محض بہتر افراد ڈھونڈنے کی بجائے نظام کو درست کرنے کی جدوجہد ضروری ہے۔
ڈاکٹروں کا اقدام درست یا غلط؟
جب بھی کوئی طبی غفلت کا واقعہ رونما ہو، اس کے لیے ذمہ داران کا تعین کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ یہ عمل شفاف طریقے سے خودمختار ریگولیٹرز کے ذریعے ہونا چاہیے۔ فوجداری مقدمات قائم کر کے الزام ثابت ہونے سے پہلے ہی، اوربغیر کسی میڈیکل سائنس کو سمجھنے والی اتھارٹی کی رائے لیے ڈاکٹروں کو اگر گرفتار کر کے نشان عبرت بنایا جائے گا، تو پھر کون یہ جرات کرے گا کہ ایمرجنسی میں ہسپتال لائے گئے مریض کی ٹریٹمنٹ کرے۔
دنیا بھر میں مریضوں کی میڈیکل ہسٹری بنتی ہے اور اس کا آن لائن ریکارڈ موجود ہوتا ہے۔ جب بھی کسی ایمرجنسی میں مریض جاتا ہے، تو ہسپتال یا ڈاکٹرکو میڈیکل ہسٹری سے معلوم ہوتا ہے کہ مریض کو دیگر کیا امراض یا الرجیز لاحق ہیں، جن کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی ٹریٹمنٹ شروع کی جاتی ہے۔ تاہم یہاں ایسا کوئی میکنزم نہیں موجود ہے۔ ایسی کیفیت میں اگر ڈاکٹر ایمرجنسی کے مریض کو ان تمام ٹیسٹوں کے لیے راولپنڈی اسلام آباد بھیج دے، تاکہ وہ ٹیسٹ ملیں تو پھر ٹریٹمنٹ شروع کی جائے تو لوگ اسے کچا چبا لیں گے۔ اب صورتحال ایسی بن جائے گی کہ وہ علاج کرتا ہے تب بھی مارا جاتا ہے اور نہیں کرتا تب بھی مارا جاتا ہے۔ مسئلہ انصاف فراہم کرنے، یا غفلت کے مرتکب لوگوں کو سزا دینے کا نہیں، بلکہ انصاف فراہم کرنے کے درست اور سائنسی طریقے کی عدم موجودگی کا ہے۔
پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کو فورانزک کے لیے لاہور بھیجا جاتا ہے۔ ایک فورانزک لیب بھی اس خطے میں موجود نہیں ہے، بلکہ شاید پورے پاکستان میں ایک ہی لیب موجود ہے۔ جب تک موت کی درست وجہ معلوم نہیں ہوتی، اور اس وجہ کے ذمہ دار کا تعین نہیں ہوتا، تب تک اس کے خلاف کریمنل پروسیجر شروع کرنا ہی دراصل انصاف کا قتل ہے۔
اس لیے بادی النظر میں ڈاکٹروں نے جو انتہائی اقدام اٹھایا ہے، اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی راستہ ہی باقی نہیں بچا تھا۔