09/06/2024
*نباض حکیم، کردار گم گشتہ*
(کہاں گئے وہ حکماء جو بغیر کسی ٹیسٹ کے فقط نبض دیکھ کر مرض کی تہہ تک پہنچ جاتے تھے؟ پڑھیے 6 جون 2024 کو روزنامہ اساس میں شائع ہونے والا شان دار تجزیہ)
*از قلم: حکیم شاکر
________________
حکیم علوی خان (متوفی 1747ء) کا شمار دہلی کے ممتاز اطبا میں ہوتا تھا۔ آپ نادر شاہ، شاہ ایران کے ذاتی معالج بھی تھے۔ آپ کو طب و حکمت کی دنیا میں شہنشاہ مانا جاتا ہے۔ مشہور ہے کہ دہلی کے ایک نواب عبدالکریم کی بیگم صاحبہ کے پستان پر گلٹی ظاہر ہوئی، جس نے ناسور کی شکل اختیار کر لی۔ درد کی شدت سے اس کا برا حال تھا، لیکن وہ پردے کی پابند ہونے کی وجہ سے کسی بھی حکیم کو دکھانے کے لیے تیار نہ تھی۔ کسی نے حکیم علوی صاحب کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔ نواب صاحب حکیم صاحب کے پاس آئے اور اپنی بیگم صاحبہ کی شرط بھی سنا دی کہ آپ کو وہ معائنہ تو کجا، نبض دکھانے کی بھی روادار نہیں ہے۔ براہ مہربانی اس کا کوئی حل ارشاد فرما دیجیے۔ حکیم صاحب نے مسکرا کر ایک تھیلے میں سے باریک میدہ نکالا اور کہا کہ یہ اپنی بیٹھک میں بچھا دو اور بیگم صاحبہ سے کہو کہ اس کے اوپر سے چل کر جائیں۔ میں تھوڑی دیر بعد بیٹھک میں بچھے اس میدے کا جائزہ لے کر علاج تجویز کر دوں گا۔ چنانچہ نواب صاحب نے میدہ اٹھایا اور گھر چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد حکیم صاحب جب بیٹھک میں پہنچے، ایک جگہ نشان قدم پر کچھ چھپا دیا اور دوبارہ بیگم صاحبہ کو ان نشانات پر چلنے کے لیے کہا۔ جب وہ چلی گئی تو ایک جگہ پر غور سے دیکھ کر کہا: '' مبارک ہو، آپ کی بیگم صاحبہ کا علاج ہو چکا ہے۔'' (ماخوذ از دلی اور طب یونانی ص:77) صاحبِ کتاب کے مطابق حکیم صاحب نے نشانات کے ذریعے رگ پہچان کر اس میدے میں ایک سوئی چھپا دی تھی۔ جس پر کوئی دوائی لگائی گئی تھی۔ چونکہ بیگم صاحبہ کسی کو نبض دکھانے پر بھی تیار نہ تھیں، اس لیے اس مرض کا ایک ہی حل رہ گیا تھا کہ اس کا حجامہ ایسے طریقے سے کیا جائے کہ انھیں اس کا پتا بھی نہ چلے۔ یہی اصل طب تھی جسے ''حکمت'' کے ساتھ استعمال کیا جاتا تو بغیر کسی مشین کی مدد لیے بڑے بڑے امراض کا علاج ہو جاتا۔
نبض کے ذریعے تشخیص کر لینے کا ایک واقعہ حکیم اجمل خان صاحب کا بھی ہے۔ آپ کا شمار ماضی قریب میں برصغیر کے نام ور اطبا میں ہوتا ہے ۔ آپ ایک مرتبہ انگلینڈ گئے تو ڈاکٹر اسٹینلے بائیڈ کی کلینیکل سرجری کی کلاس میں شریک ہوئے۔ وہاں ایک مریض زیر بحث تھا، جس کے پیٹ میں شدید درد رہتا تھا۔ ڈاکٹر بائیڈ نے حکیم صاحب سے کہا: ''آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟'' حکیم صاحب نے معائنہ کرنے کے بعد فرمایا کہ ''اس کی آنت کے ابتدائی حصے میں پرانا زخم ہے۔'' ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ ''ہماری تشخیص کے مطابق مریض کے پتے میں ورم ہے۔ جس کا ہم کل آپریشن کریں گے۔'' چنانچہ آپریشن کیا گیا تو پتے کو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ آنت کے ابتدائی حصے میں زخم تھا، جو کافی حد تک خراب ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر بائیڈ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بغیر کسی مشینی ٹیسٹ کے کس طرح اتنی درست تشخیص ہو گئی؟ ڈاکٹر صاحب نے حکیم اجمل خان صاحب کی پرتکلف دعوت کی اور ان سے مزید کچھ سکھانے کی فرمائش بھی کی۔ اسی سفر میں حکیم صاحب نے شاہ انگلستان جارج پنجم کے مرض کی تشخیص کی، جسے شاہی ڈاکٹر نے بعد میں درست قرار دیا اور حیرانی کا اظہار بھی کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ بغیر کسی آلہ کے، فقط نبض دیکھ کر مرض بوجھ لیا جائے! (اطباء کے حیرت انگیز کارنامے)
سوال یہ ہے کہ اب یہ طب و حکمت اور ایسے نباض حکیم کہاں پائے جاتے ہیں، جو نبض پر ہاتھ رکھتے ہی مرض کی تہہ تک پہنچ جاتے تھے؟ کہاں ہیں وہ طب یونانی کے ماہر جو محض مالش کے ساتھ ہی ٹوٹی ہڈیاں جوڑ لیتے تھے؟ حکیم نابینا دہلوی رحمہ اللہ کو گزرے ابھی ایک صدی بھی نہیں ہوئی، ان سے علاج کروانے لوگ یورپ سے آتے تھے۔ مسیح الملک حکیم اجمل خان دہلوی کے لیکچروں کی گونج ابھی مغربی یونیورسٹیوں سے ختم نہیں ہوئی۔لیکن ایک ہی صدی میں یہ لوگ کہاں عنقا ہو گئے؟ اس کے جواب میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ جس کے ضمن میں بھی کافی ساری باتیں آ جاتی ہیں۔ ہم ان جوابات کو تین اقسام میں بانٹ سکتے ہیں: نمبر ایک تعلیم و تربیت کا فقدان، نمبر دو حکومتی پالیسیاں اور نمبر تین حکماء اور عوام کا رویہ۔
پہلے نمبر پر تعلیم و تربیت کا فقدان، جو کہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ طبیہ کالجز چند ایک کو چھوڑ کر اکثریت طب سے مخلص نہیں ہے۔ بہت سے ایسے کالج ہیں جہاں طلبہ فقط امتحان دینے آتے ہیں، نہ وہاں باقاعدہ پڑھائی ہوتی ہے اور نہ ہی سال بھر اساتذہ نظر آتے ہیں۔ پریکٹیکل تعلیم کا تصور نہیں ہے۔ ماضی میں ماہر اساتذہ کرام طلبہ کو اپنے ساتھ بیس بیس سال تک رکھتے تھے اور نبض، قارورہ، مزاج اور جسمانی ہیئت دیکھ کر تشخیص کرنا سکھاتے تھے۔ انھیں اخلاط اربعہ، کلیات اور اسباب الامراض پر مکمل دسترس حاصل ہو جاتی تھی۔ لیکن اب ہر کوئی عجلت میں ہے۔ ہر شخص کو چار سالہ ڈپلومہ جلد از جلد چاہیے۔ چاہے اسے طب کی الف بے بھی نہ آتی ہو۔ ہزاروں میں ایک حکیم ہوگا جسے ان چیزوں پر عبور حاصل ہوگا، ورنہ اکثریت بے خبر ہے۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی آ جاتی ہے کہ تحقیق کا مادہ عنقا ہو چکا ہے۔ اکثر یونانی طب سے منسلک حکماء فقط نسخوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ حالانکہ ہر نسخہ ہر شخص کے لیے نہیں ہوتا۔ نئے امراض پر سائنٹیفک طریقے تحقیق کرنے والے ادارے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے انسانیت کی ہزاروں سال سے محسن شمار ہونے والی طب آج جان کنی کے عالم میں ہے۔
اس کے قصور وار فقط طبیہ کالج یا طبیب حضرات ہی نہیں، حکومت بھی ہے۔ ایسی پالیسیاں ترتیب دی گئیں اور ماحول پیدا کیا گیا کہ طب کو گویا ''انسانیت دشمن'' ظاہر کیا گیا۔ اسے ''اتائیت'' اور ڈھکوسلہ کہا گیا۔ اطباء سے ان کے بنیادی حقوق تک چھین لیے گئے۔ دراصل جب انگریز برصغیر پر قابض ہوا تو اس نے قابل فخر ہر مقامی چیز کو فرسودہ اور ناقابل عمل قرار دے دیا۔ زبان، تعلیم، نظام، مذہب، صنعت و حرفت اور طریق علاج وغيرہ۔ دیسی چیزوں کے خلاف پروپیگنڈہ مہمیں چلائی گئیں۔ جس کا شکار فقط یونانی طب ہی نہیں ہوئی، بلکہ آیورویدک، اکوپنکچر وغیرہ دیگر طُرُقِ علاج بھی متاثر ہوئے۔ انگریزی طب یعنی ایلوپیتھک کے اعلیٰ ہونے کا اتنا ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ باقی طبیں پس منظر میں چلی گئیں۔ حالانکہ ایلوپیتھک یونانی طب ہی سے ماخوذ ہے۔ یورپی یونیورسٹیوں میں زمانہ قریب تک بوعلی سینا، ابوالقاسم الزہراوی اور محمد بن زکریا رازی کی کتب پڑھائی جاتی رہی ہیں۔ انھی کتب کو علامہ اقبال مرحوم نے جب وہاں دیکھا تو فرمایا:
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھوں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ
مزے کی بات یہ ہے کہ انگریز نے ہمارے اکابر سے تعصب کا ایسا رویہ رکھا کہ ان کے نام بھی تبدیل کر دیے، جنھیں پڑھ کر ان کے انگریز ہونے کا گمان ہوتا ہے: مثلاً بو علی سینا کو ایویسینا، ابن الہیثم کو الہیزان، جابر بن حيان کو ڈابر وغيرہ کہنے لگے۔ آقا قوم کا رجحان دیکھتے ہوئے محکوم قوم بھی ان دیسی چیزوں سے دستبردار ہوتے ہوئے اپنے بچوں کو انگریزی طب سیکھنے پر لگا دیا۔ یوں ذہین بچے طب سے کی بجائے ایلوپیتھک کے خادم بن گئے۔ یوں نباض حکماء کی تعداد میں نمایاں کمی ہو گئی۔ ابھی تک ہماری حکومت کا سلوک حکماء کے ساتھ سوتیلی اولاد جیسا ہے۔ انھیں ابھی تک اپنی بقا کی جنگ لڑنا پڑ رہی ہے۔ قانون میں دیسی طب اور طبیبوں کو کوئی سہولت حاصل نہیں ہے، نہ ہی ان کا کوئی پرسان حال ہے۔ کیا حکومت کا فرض نہیں کہ ان کے مسائل سنے اور حل کرے؟ صورت حال یہ ہے کہ لڑ جھگڑ کر ان کی تعلیم کو اب جا کر ایف ایس سی کے مترادف مانا گیا ہے۔ حالانکہ طب کا ڈپلومہ ایم بی بی ایس سے کم نہیں ہے۔ حکومت ان لوگوں کو بھی بڑے بڑے ہسپتال بنانے اور چلانے کی اجازت کیوں نہیں دیتی؟ کیا ان کی اپنی سائنٹفک لیبارٹریاں نہیں ہونی چاہئیں، جنھیں حکومت کی جانب سے گرانٹ ملے؟ کیا طب کے ذہین طلبہ کو بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکالر شپ جاری کرنے میں کوئی مسئلہ ہے؟ دوسری جانب صورت حال یہ ہے کہ طبیب حضرات کو ایک مطب قائم کرنے کے لیے اتنے جتن کرنے پڑتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں ''بخشو بی بلی ،چوہا لنڈورا ہی بھلا۔''
نباض حکماء پیدا نہ ہونے میں تیسرے قصور وار خود حکماء کرام اور عوام الناس ہیں۔ عوام انجکشن اور کیمیکل گولیوں کے ایسے عادی ہو چکے ہیں کہ وہ اپنا یہ اصول، طب پر بھی لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جیسے پیراسیٹامول کھاتے ہی سر درد کا آرام آ جاتا ہے، اسی طرح ہربل دوائیں کھانے سے بھی فوراً سکون مل جائے۔ حالانکہ یہ بات ایلوپیتھک ماہرین بھی جانتے ہیں کہ اس طرح کرنا بہت سے مزید امراض کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ لیکن عوام اطبا کو مجبور کرتے ہیں کہ ہمیں ایسی ہی دوا دیں جس سے منٹوں میں آرام آ جائے۔ حکماء کو اپنے گھر کا چولہا جلانے کے لیے یہ اقدام اٹھانا پڑتا ہے۔ چنانچہ انھیں کیا ضرورت نبض و قارورہ اور اخلاط و امزجہ کے چکر میں پڑنے کی! نیز عوام چند مخصوص امراض کا علاج کروانے ہی حکماء کے پاس آتے ہیں۔ ان کا ذہن بن گیا ہے کہ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر عمل کرنا ہو تو حکیم کے پاس چلے جاؤ۔ باقاعدہ علاج کروانا ہوا تو ایلوپیتھک ڈاکٹر کے پاس جائیں گے۔ لہٰذا ان کی تعلیم اور تجربے کو زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ یوں جو چند لوگ طب کی طرف آتے بھی ہیں تو ترقی نہیں کر پاتے۔ نتیجتاً نباض حکماء کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں رہی۔
اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ نباض حکماء وطن عزیز سے ختم ہو چکے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اب بھی بہت سے اساتذہ طبیب اپنی سی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ہمارے پاس ہمدرد یونیورسٹی، اشرف لیبارٹری اور حمایت اسلام طبیہ کالج کی شکل میں چند ادارے موجود ہیں۔ اگر ان کی اخلاقی، مالی اور فنی امداد کی جائے تو یقیناً پھر سے ماہر طبیب گلی گلی میں نظر آنے لگیں۔ جو محض زبان کا رنگ چیک کر کے اور نبض دیکھ کر ہی پورا مرض جان لیں۔ تو لاکھوں مریضوں کے کروڑوں روپے جو فقط میڈیکل ٹیسٹوں پر اٹھ رہے ہیں، بچ جائیں اور بہت سے ایسے لوگ جو اسپتالوں کے بستر پر ٹیسٹ رپورٹ آنے کے انتظار میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں، شاید چار دن مزید زندگی کی بہاریں دیکھ لیں۔
Prof. Dr. Hakim Asmat Ullah Khan
PhD Medicine (Neuro), Brazil, Latin America
Nabaz-Shanas نباض حکیم
Natural Health Services Hospital Rawalakot
03330280537 l 03450653984