
10/05/2025
Sochny ki baat hy
پاکستان کیسے ترقی کرے گا؟
جب لوگوں کا یہ ماننا ہو کہ شوگر صرف چینی کھانے سے ہوتی ہے، لیکن دیسی شکر اور گُڑ بے ضرر سمجھے جائیں۔
جب یہ تصور عام ہو کہ دودھ اور چاول بلغم پیدا کرتے ہیں اور زخم میں "ریشہ" ڈال دیتے ہیں۔
جب سانس کے مریض انہیلر لینے کے بجائے پڑوس کی خالہ کی "چالیس سالہ تجربہ کاری" کو ترجیح دیں۔
جب شہر کے بڑے ڈاکٹر کی نسخہ لکھی دوا کا اعتبار ایک میڈیکل اسٹور کے سیلز مین سے پوچھ کر کیا جائے۔
جب شوگر کے مریض ایک دوسرے کو دوا یہ کہہ کر دیں کہ "مجھے آرام آیا، تم بھی کھاؤ"۔
جب لوگ انجیکشن کے ملی گرام اور گرام کا فرق سمجھے بغیر صرف "دو گرام" سن کر خوش ہو جائیں۔
جب 104 بخار والے بچے کو یہ کہہ کر ٹیکہ نہ لگوایا جائے کہ "بخار میں ٹیکہ منع ہوتا ہے"۔
جب زخم پر ڈیزل یا پٹرول لگایا جائے، اور جلی ہوئی جلد پر ٹوتھ پیسٹ مل دی جائے۔
جب سانپ کے کاٹے پر ویکسین کے بجائے کسی "بابے" کے منکے پر یقین کیا جائے۔
جب خسرہ، یرقان، ہسٹیریا جیسے امراض کو جادو، اثر یا جنات سے جوڑ دیا جائے۔
جب سرکاری اسپتالوں میں مریضوں سے بدسلوکی کی جائے اور وہی ڈاکٹر نجی کلینک میں اخلاقیات کا نمونہ بنے ہوں۔
جب گلی محلوں کے ناتجربہ کار ڈسپنسرز، کم پیسوں میں، دکھاوے کی رنگ برنگی دوائیں دے کر مستند ڈاکٹرز کا نعم البدل سمجھے جائیں۔
جب لوگ فون پر علاج کروانا بہتر سمجھیں اور وقت یا پیسہ بچاتے بچاتے اپنی صحت داؤ پر لگا دیں۔
ایسے معاشرے میں ترقی صرف خواب بن جاتی ہے، جب تک صحت کے بارے میں سنجیدہ شعور نہ بیدار کیا جائے۔
یہی مقصد ہمارا ہے: صحت کی آگاہی عام کرنا۔
آئیے! اس پیغام کو پھیلائیں۔ اسے اپنے دوستوں، اہلِ خانہ اور جاننے والوں تک پہنچائیں۔
شئیر کریں، ٹیگ کریں، دعوت دیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ فائدہ اٹھا سکیں۔
کیونکہ آگاہی ہی علاج سے بہتر ہے۔