Dr Muhammad Mohsin Cardiologist

Dr Muhammad Mohsin Cardiologist امراض قلب کی وجوہات ، تدارک، علاج اور بچاؤ سے متعلق معلوماتی پیج
(1)

Peripartum Cardiomyopathy: weakening of heart function in the late stages of or soon after pregnancyپیری پارٹم کارڈیومائ...
18/06/2024

Peripartum Cardiomyopathy: weakening of heart function in the late stages of or soon after pregnancy

پیری پارٹم کارڈیومائیوپیتھی : دل کے پٹھے کا حمل کے آخری مراحل میں یا حمل کے کچھ عرصے بعد کمزور ہو جانا

پیری پارٹم کارڈیومائیوپیتھی حاملہ خواتین کی بیماری ہے۔
اس میں حمل کے آخری ماہ سے لے کر ڈیلیوری کے پانچ ماہ بعد تک دل کا پٹھا کمزور ہو جاتا ہے۔
نارمل دل کا فنکشن 55% سے 80% تک ہوتا ہے۔
جبکہ پیری پارٹم کارڈیومائیوپیتھی میں ایجیکشن فریکشن عموماً 45% سے کم ہو جاتا ہے (سب سے شدید علامات ان خواتین میں دیکھی جاتی ہیں جن کا ایجیکش فریکشن 30% یا اس سے کم ہو).
اس وجہ سے متاثرہ خواتین ہارٹ فیلیئر کی علامات کے ساتھ اپنے معالج کے پاس جاتی ہیں۔

پیری پارٹم کارڈیومائیوپیتھی 1000 سے 4000 حاملہ خواتین میں سے کسی 1 کو ہوتا ہے۔

پیری پارٹم کارڈیومائیوپیتھی کے رسک فیکٹرز
1. خاتون کی عمر 30 سال سے زیادہ ہونا
2. دوسرا، تیسرا یا اس سے زیادہ بار حمل ہونا
3. افریقی نژاد ہونا
4. حاملہ خواتین کا وزن کم ہونا یا خوراک کی کمی ہونا
5. سگریٹ نوشی یا تمباکو نوشی کرنا
6. حاملہ خواتین کا بلند فشار خون/ ہائی بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا ہونا

پیری پارٹم کارڈیومائیوپیتھی کی علامات

1. سانس پھولنا
2. لیٹنے پہ کھانسی شروع ہو جانا
3. لیٹنے پہ دم گھٹتا ہوا محسوس ہونا
4. پاؤں اور ٹانگوں پہ سوجن ہونا
5. چلنے پہ دشواری ہونا
6. چکر آنا یا بےہوش ہو جانا
7. دل کی دھڑکن زور سے یا بے ترتیب محسوس ہونا
8. بھوک کم ہو جانا یا متلی ہونا
یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ سب علامات حمل میں ویسے بھی ہو سکتی ہیں اور ضروری نہیں کہ ان علامات والی ہر حاملہ خاتون کو پیری پارٹم کارڈیومائیوپیتھی ہی ہو۔
لیکن اگر یہ علامات حمل کے پہلے مراحل کی نسبت زیادہ شدید ہونا شروع ہو جائیں تو اپنے معالج سے ضرور رجوع کریں

پیری پارٹم کارڈیومائیوپیتھی کی تشخیص دل کے سپیشلسٹ/ کارڈیالوجسٹ کرتے ہیں اور گائناکالوجسٹ کے ساتھ مل کے متاثرہ خواتین کا علاج کیا جاتا ہے۔
اس کی تشخیص کیلیے
ای سی جی،
ایکوکارڈیوگرافی
اور
بی این پی (بلڈ ٹیسٹ)
انتہائی اہم ہیں۔
اس کے علاوہ چھاتی کا ایکس رے، دل کا سی ٹی سکین یا ایم آر آئی اور متعدد اور بلڈ ٹیسٹ بھی کیے جا سکتے ہیں۔

اس کا علاج عموماً ادویات کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
لیکن اگر متاثرہ خاتون کا ہارٹ فیلیئر زیادہ شدید ہو تو انہیں ہسپتال میں داخل کر کے علاج کی ضرورت پڑتی ہے۔

پیری پارٹم کارڈیومائیوپیتھی میں شرح اموات 2% سے لے کر 24% تک ہے (مختلف تحقیقاتی جریدوں سے لیے گئے اعداد و شمار).
ان میں وہ خواتین زیادہ رسک پہ ہوتی ہیں جن کا ایجیکش فریکشن 35% سے کم ہو۔

ریکوری:
71% خواتین کا ایجیکش فریکشن علاج کے ساتھ بہتر ہو کہ 50% سے زائد ہو جاتا ہے اور ان کی علامات بھی ٹھیک ہو جاتی ہیں (بہتری آنے کے اس عمل میں کئی ماہ لگتے ہیں)۔
13%خواتین کا ایجیکش فریکشن مسلسل گرتا چلا جاتا ہے یا ٹھیک نہیں ہوتا۔
ان خواتین میں پیچیدگیاں پیدا ہونے کا رسک زیادہ ہوتا ہے۔ یہ خواتین ترقی یافتہ ممالک میں ہارٹ ٹرانسپلانٹ یا ایل ویڈ تھراپی (LVAD) پہ جاتی ہیں - لیکن یہ سہولت پاکستان میں ابھی موجود نہیں ہے۔
باقی ماندہ 16% خواتین کا ایجیکش فریکشن بہتر تو ہو جاتا ہے لیکن مکمل ٹھیک نہیں ہوتا اور انہیں لمبے عرصے تک زیر علاج رہنا چاہیے۔

جن خواتین کو ایک بار پیری پارٹم کارڈیومائیوپیتھی ہو چکی ہو ان کو اگلے حمل میں یہ بیماری دوبارہ ہونے کا رسک 50% تک ہوتا ہے۔
اس میں بھی ان خواتین کا رسک زیادہ ہوتا ہے جن کا ایجیکش فریکشن پوری طرح ریکور نہ کیا ہو۔
اس سلسلے میں اگر آپ کو دوبارہ حمل پلان کرنا ہے تو اپنی گائناکالوجسٹ اور کارڈیالوجسٹ سے تفصیلاً مشورہ کریں، رسک کو جانیں اور پھر فیصلہ کریں۔
اگلا حمل ہونے پہ ایسی خواتین کا ہر ماہ ایکوکارڈیوگرافی کے ذریعے کارڈیالوجسٹ معائنہ کرتے ہیں اور اگر مسئلہ دوبارہ بن رہا ہو یا شدید ہو رہا ہو تو ماں کی صحت اور زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے حمل کو روکنا پڑ سکتا ہے۔

پیری پارٹم کارڈیومائیوپیتھی ایک ایسی بیماری ہی جس کی تشخیص اچانک اور غیر متوقع طور پہ ہوتی ہے۔
حمل یا ڈیلوری کے فوراً بعد بڑھی ہوئی زمہ داریاں اور خاندان کی توقعات متاثرہ خاتون پہ شدید ذہنی تناؤ ڈالتی ہیں (اور وہ پہلے ہی جسمانی مرض کی وجہ سے کمزور بھی ہو جاتی ہیں)۔
اس صورت میں ان کا خیال رکھنا، حوصلہ بڑھانا اور موزوں علاج کرانا تمام گھر والوں کی دمہ داری ہے۔

Heart patients: what precautions to take in summersموسم گرما اور امراض قلبپچھلے چند دنوں میں درجہِ حرارت میں نمایاں اضاف...
25/05/2024

Heart patients: what precautions to take in summers

موسم گرما اور امراض قلب

پچھلے چند دنوں میں درجہِ حرارت میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
لوگ گرمی سے پریشان بھی ہیں اور اس کا ازالہ کرنے کیلیے طرح طرح کی تدابیر کرنے پہ بھی مجبور ہیں۔

ایسی صورتحال میں وہ لوگ جن کو دائمی امراض لاحق ہیں، وہ سب سے زیادہ رسک پہ ہوتے ہیں۔
ان کی قوت برداشت کم ہوتی ہے اور سخت موسم میں ان کے اعضاء جواب دے جاتے ہیں۔

امراض قلب میں مبتلا مریض بھی اسی کیٹیگری میں آتے ہیں۔
انجانے میں گرمی سے نمٹنے کیلیے کئی ایسی غلطیاں کر جاتے ہیں جن کی وجہ سے ان کی حالت پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو جاتی ہے۔

آج کی تحریر اسی موضوع پہ ہو گی۔
کیا غلطیاں ہوتی ہیں اور ان سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔

1. پانی کا استعمال۔
عموماً ہارٹ فیلیئر کے مریضوں کو کہا جاتا ہے کہ پانی کا استعمال کم کیا کریں۔ لیکن موسم گرما میں درجہِ حرارت بڑھنے کی وجہ سے آنے والے پسینے میں بہت سا پانی ضائع ہو جاتا ہے۔
اگر مریض پانی کا روزمرہ کا استعمال نہیں بڑھائیں گے تو ان کے اعضاء پہ لوڈ پڑتا ہے، گردوں پہ اثر ہوتا ہے، بلڈ پریشر کم ہوتا ہے، چکر آتے ہیں اور قوت مدافعت کم ہونے سے انفیکشن ہونے کا رسک بڑھ جاتا ہے۔
پانی کی کمی سے خون گاڑھا ہو جاتا ہے اور فالج، ہارٹ اٹیک اور بینائی ضائع ہونے کا رسک بڑھ جاتا ہے۔
یہاں اس بات کو سمجھنا بھی ضروری ہے کہ موسم گرما میں پانی کا استعمال بڑھانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ آپ پانی کا بے دریغ استعمال کریں اور کٹورے کے کٹورے پی جائیں۔
پانی کے استعمال کو اعتدال پسندی سے بڑھائیں۔
اگر کسی کا سانس نہیں پھولتا، پاؤں اور ٹانگوں پہ سوجن نہیں ہے اور بار بار ہسپتال کی ایمرجنسی میں نہیں جانا پڑتا تو ایسے مریض دن میں 4 سے 8 گلاس پانی پی سکتے ہیں۔
جن لوگوں کا کام زیادہ گرمی میں ہوتا ہے یا جن کو پسینہ بہت زیادہ آتا ہے، وہ اس سے زیادہ پانی بھی پی سکتے ہیں۔
اگر کسی کا کام دن بھر اے سی (AC) والے ماحول میں ہو تو وہ پانی کی مقدار کو زیادہ مت بڑھائیں۔
ان مریضوں کو اپنے پیشاب کی مقدار اور رنگت پہ بھی نظر رکھنی چاہیے - کم مقدار یا گاڑھا پیلا پیشاب آنے والے مریضوں کو پانی کی مقدار بڑھانے کی ضرورت ہے۔

2. گرمی میں کام کرنا۔
امراض قلب کے مریضوں کو چاہیے کہ وہ ایسے اوقات میں کام یا مشقت مت کریں جن میں گرمی عروج پہ ہو۔
سخت موسم سے خود کو بچائیں (جیسا کہ دن 12 سے لے کہ 4 بجے).
درجہِ حرارت کم ہونے پہ اپنے باقی ماندہ کام کر لیں۔

3۔ لسی کا استعمال۔
لسی ہماری ثقافت کا حصہ بھی ہے اور خوراک کا بھی۔
امراض قلب کے مریض لسی کا استعمال کر سکتے ہیں لیکن اس میں نمک یا چینی ہرگز مت ڈالیں۔
اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ لسی کا ایک گلاس پانی کے ایک گلاس کے برابر تصور کیا جاتا ہے - لہذا اگر آپ ایک گلاس لسی پیئیں گے تو اپنی پانی کی استعمال ہونے والی مقدار میں سے ایک گلاس کم کر دیں۔

4. تربوز اور خربوزے کا استعمال۔
موسم گرما میں ان دونوں کی بہتات دیکھنے کو ملتی ہے۔
لوگ ان کا استعمال بھی بہت شوق سے کرتے ہیں۔
لیکن اس بات کا خیال رکھیں کہ امراض قلب اور بلڈ پریشر کے مریضوں کیلیے تربوز پہ نمک چھڑکنا منع ہے۔
اسی طرح ان کا استعمال بھی اعتدال پسندی سے کریں۔ ان دونوں پھلوں میں پانی کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے اور ان کا زیادہ استعمال ہارٹ فیلیئر اور ویلو (valves) کے مریضوں کی چھاتی میں پانی بھرنے کی وجہ بن سکتا ہے۔
ایک دن میں تربوز یا خربوزہ کا ایک چھوٹا باؤل (پیالہ) استعمال کیا جا سکتا ہے۔

5. مشروبات اور کولڈ ڈرنکس کا استعمال۔
کوشش کریں کہ سادہ پانی پیئیں۔ مشروبات کا استعمال منع نہیں ہے لیکن حتی الامکان کوشش کریں کہ سادہ پانی پیا جائے۔
کولڈ ڈرنکس کا استعمال امراض قلب کے مریضوں کیلیے نقصان دہ ہے۔

6. ٹھنڈے پانی کا استعمال۔
ٹھنڈ کی وجہ سے دل پہ بوجھ پڑتا ہے۔
اس کے علاوہ چھاتی کا انفیکشن ہونے کا رسک بھی بڑھ جاتا ہے۔
امراض قلب کے مریضوں کیلیے فریج میں ٹھنڈا کیا ہوا پانی یا برف ملا پانی پینا منع ہے۔
روم ٹیمپریچر پہ پانی ان مریضوں کیلیے موزوں ہے۔
لیکن اگر ٹھنڈا پانی پینا مقصود ہو تو گھڑا یا مٹی کا کولر خریدیں اور اس میں ڈالا ہوا پانی استعمال کریں۔

7. پیشاب آور ادویات۔
موسم گرما شروع ہونے پہ اپنے معالج سے رجوع کریں اور وہ آپ کی جسمانی صورتحال کے مطابق دوا ایڈجسٹ کر دیں گے۔
لیکن خود سے کوئی دوا کم نہ کریں۔

8. اے سی (AC) کا ٹیمپریچر 26 سے 28 پہ رکھیں۔
زیادہ ٹھنڈک سے امراض قلب کے مریض بگڑ سکتے ہیں۔
اسی طرح اے سی یا کولر کے بلکل سامنے مت بیٹھیں۔
گاڑی میں بھی اے سی کا رخ اپنے چہرے یا چھاتی کی طرف مت کریں۔

9. ورزش کے اوقات کو موسم کے مطابق ایڈجسٹ کریں۔
موسم گرما میں صبح طلوع آفتاب کے آس پاس یا شام کو ورزش یا واک کا معمول سیٹ کریں۔

10. دوا باقاعدگی سے استعمال کریں۔
موسم گرما میں بھی دوا کا استعمال انتہائی اہم ہے۔
اگر کسی دوا مسئلہ ہو رہا ہو تو اپنے معالج سے رجوع کر کہ اس کو ایڈجسٹ کرائیں۔

اپنا اور اپنے گھر والوں کا خیال رکھیں۔
بدپرہیزی اور چھوٹی چھوٹی باتوں پہ ضد کرنے سے اکثر اوقات نقصان پہنچتا ہے اور کبھی کبھار اس کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا۔
صحت جیسی نعمت کی قدر بھی کریں اور اس کو برقرار رکھنے کی تدابیر کو بھی اپنائیں۔

When can you resume driving after a Heart Attack, Angiography, Angioplasty, CABG surgery, Cardiac Arrest and Device impl...
18/03/2024

When can you resume driving after a Heart Attack, Angiography, Angioplasty, CABG surgery, Cardiac Arrest and Device implantation (PPM, ICD, CRT)?

ہارٹ اٹیک، اینجوگرافی، اینجیوپلاسٹی، بائی پاس سرجری، کارڈیک اریسٹ اور پیس میکر، آئی سی ڈی اور سی آر ٹی کے بعد آپ ڈرائیونگ دوبارہ کب شروع کر سکتے ہیں؟

1. ہارٹ اٹیک:

اگر ہارٹ اٹیک بغیر پیچیدگیوں کے ہو، اس کے بعد آپ کی اینجیوگرافی اور اینجیوپلاسٹی ہو گئی ہو اور شریان کھل گئی ہو تو آپ اٹیک کے 7 دن بعد ڈرائیونگ شروع کر سکتے ہیں۔

اگر ہارٹ اٹیک پیچیدگیوں کے ساتھ ہوا ہو (مثلاً اٹیک کے ساتھ دل کی دھڑکن کے مسائل ہوئے ہوں، بلڈ پریشر کم ہو گیا ہو، چھاتی میں پانی بھر گیا ہو، وینٹیلیٹر کی ضرورت پڑی ہو, وغیرہ) تو ڈرائیونگ دوبارہ شروع کرنے سے پہلے معالج کی اجازت ضروری ہوتی ہے۔
اس میں عموماً ایک سے تین ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔

اگر اٹیک کے ساتھ کارڈیک اریسٹ ہوا ہو، شاک لگائے گئے ہوں، سی پی آر ہوا ہو تو آپ اگلے چھ ماہ تک ڈرائیونگ نہیں کر سکتے۔

اگر ہارٹ اٹیک کے بعد اینجیوگرافی نہ ہوئی ہو تو ڈرائیونگ ایک ماہ بعد دوبارہ شروع کی جا سکتی ہے۔

اگر ہارٹ اٹیک کے بعد اینجیوگرافی تو ہوئی ہو لیکن اینجیوپلاسٹی نہ ہو سکی ہو اور اٹیک کرنے والی شریان بند ہی ہو، تو بھی ڈرائیونگ کم از کم ایک ماہ بعد ہی دوبارہ شروع کی جا سکتی ہے۔

2. اینجیوگرافی۔
(یہاں اینجیوگرافی سے مراد بغیر ہارٹ اٹیک کے کی جانے والی اینجیوگرافی ہے۔ مثلاً انجائنا کیلیے).
اگر بازو سے اینجیوگرافی کی گئی ہو (Radial or Ulnar) تو آپ دو دن بعد ڈرائیونگ شروع کر سکتے ہیں۔
اگر اینجوگرافی ٹانگ سے ہوئی ہو (Femoral) تو بہتر ہے کہ ڈرائیونگ ایک ہفتے کے بعد ہی شروع کریں۔

3. اینجیوپلاسٹی۔
(یہاں بھی مراد بغیر ہارٹ اٹیک کے کی گئی اینجیوپلاسٹی ہے).

بازو سے کی گئی اینجیوپلاسٹی کے دو دن بعد ڈرائیونگ شروع کی جا سکتی ہے۔
ٹانگ سے اینجیوپلاسٹی ہوئی ہو تو ایک ہفتے بعد ڈرائیونگ شروع کریں۔

4. بائی پاس سرجری۔
چونکہ یہ ایک بڑا آپریشن ہوتا ہے اور مکمل ٹھیک ہونے میں وقت درکار ہوتا ہے اس لیے ڈرائیونگ دوبارہ شروع کرنے سے پہلے اپنے معالج سے مشورہ ضرور کریں۔
عموماً 4 سے 8 ہفتے بعد (یعنی ایک سے دو ماہ) ڈرائیونگ شروع کی جا سکتی ہے۔
اس کیلیے یہ بھی ضروری ہے کہ آپ کی ریکوری کے دوران کوئی پیچیدگی نہ پیش آئی ہو۔ اگر ریکوری میں مسائل بنے ہوں تو ڈرائیونگ دوبارہ شروع کرنے کی اجازت بھی دیر سے دی جائے گی۔

5. کارڈیک اریسٹ (Cardiac arrest)
دل رک جانا، سی پی آر ہونا اور جان بچ جانے کا یہ عمل دل کی بیماریوں میں سب سے سنگین نوعیت کا حامل ہے۔
اگر کسی کو کارڈیک اریسٹ ہوا ہو تو وہ کم از کم 6 ماہ تک ڈرائیونگ شروع نہیں کر سکتے۔
اس کے بعد بھی ڈرائیونگ شروع کرنے سے پہلے انہیں معالج سے مشورہ کرنا چاہئے۔

6. پیس میکر، آئی سی ڈی اور سی آر ٹی ڈلنے کے بعد (Pacemaker, ICD, CRT)
ان کے ڈلنے کے بعد عموماً اس سائیڈ کا کندھا کچھ عرصے کیلیے پورا نہیں ہلانا چاہیے۔ ورنہ ڈیوائس کی تار ہل جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔
اس لیے پیس میکر، آئی سی ڈی اور سی آر ٹی ڈلنے کے کم از کم 6 ہفتے (یعنی ڈیڑھ ماہ) بعد ہی ڈرائیونگ شروع کرنے کے بارے میں سوچیں۔ اور اس سے پہلے اپنے معالج سے مشورہ ضرور کریں۔

7. جو لوگ بڑی گاڑی چلاتے ہیں مثلاً ٹرک یا بس، انہیں ڈرائیونگ شروع کرنے سے پہلے معالج سے مشورہ ضرور کرنا چاہیے۔ چھوٹی گاڑی چلانے کے برعکس بڑی گاڑی چلانا زیادہ مشکل بھی ہے اور اس میں سٹریس (stress) کا عنصر بھی زیادہ ہے۔ یہ گاڑیاں عموماً لونگ روٹ پہ چلتی ہیں اور نیند کی کمی اور تھکاوٹ کا عنصر بھی زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے میں دوبارہ دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے اور حادثات بھی رونما ہو سکتے ہیں۔

دوبارہ ڈرائیونگ شروع کرنے سے پہلے اپنے معالج سے مشورہ ضرور کریں۔
کیونکہ جلد بازی میں جب آپ گاڑی لے کے سڑک پہ آئیں گے تو آپ کی وجہ سے ہونے والے حادثے سے آپ کا نقصان تو ہو گا ہی۔ لیکن باقی بے قصور اور بے خبر راہگیروں اور ڈرائیور حضرات کی خواہ مخواہ شامت آئے گی۔

Issues of medical compliance in elderly people.بزرگوں میں باقاعدگی سے دوا لینے کے مسائل۔جوائنٹ فیملی سسٹم اور نیوکلیئر ف...
13/03/2024

Issues of medical compliance in elderly people.

بزرگوں میں باقاعدگی سے دوا لینے کے مسائل۔

جوائنٹ فیملی سسٹم اور نیوکلیئر فیملی سسٹم سے آپ میں سے بیشتر افراد واقف ہوں گے۔
نیوکلیئر فیملی یعنی علیحدہ علیحدہ رہنا؛ اس کا رواج اب بڑھتا جا رہا ہے۔
لیکن اکثر لوگ اب بھی اکٹھے رہتے ہیں؛ یعنی جوائنٹ فیملی سسٹم میں۔

جوائنٹ فیملی میں اکثر گھر میں ایک یا دو بزرگ بھی ہوتے ہیں۔
بزرگ والدین، دادا، دادی، نانا نانی، پھپھو، خالہ، چچا وغیرہ۔

یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بزرگ افراد اکثر بیمار رہتے ہیں۔
عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے جسمانی اعضاء کمزور پڑ جاتے ہیں۔
ایسے میں ان افراد کی کئی ایسی ادویات ہوتی ہیں جو لمبے عرصے کیلیے مسلسل لینی پڑتی ہیں۔
ان ادویات کو چھوڑنے سے مریض دوبارہ بیمار پڑ جاتے ہیں۔
لیکن یہ بات بھی غلط نہیں ہے کہ مسلسل دوا کا استعمال ایک مشکل کام ہے۔
بیشتر افراد اس سے تنگ پڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔
بالخصوص بزرگ۔
انہیں روزانہ ہتھیلی بھر کے گولیاں کھانا عذاب لگتا ہے۔
لیکن اگر وہ دوا نہیں لیں گے تو بیمار پڑ جائیں گے۔
تو پھر کیا کیا جائے؟

آئیے اس امر کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

برزگ دوا کیوں نہیں کھاتے؟
1. زیادہ مقدار میں دوا۔

2. روزانہ، لمبے عرصے تک چلنے والی دوا سے تنگ آ جانا۔

3. دوا کے مقصد اور کی افادیت کے بارے میں لاعلم ہونا۔

4. بڑھاپے کے چند مسائل مکمل ٹھیک نہیں ہوتے۔ جیسا کہ قبض، ہاتھ کانپنا، دردیں، وغیرہ۔ دوا لینے کے باوجود ان مسائل کا کچھ نہ کچھ تنگ کرتے رہنے سے مریض کو لگتا ہے کہ دوا بےاثر ہے۔ اور وہ دوا چھوڑ دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ دوا شاید کسی اور بیماری کیلیے تجویز کی گئی تھی۔

5. دوا میں ناغہ کرنے سے پیدا ہونے والے مسائل سے لاعلمی۔

6. دوا کا درست طریقہ استعمال، اوقات اور مقدار کے بارے میں کئی بزرگوں کو پتا نہیں ہوتا۔ وہ اندازے سے دوا استعمال کرتے ہیں، چاہے سہی لے رہے ہوں یا غلط۔

7. کبھی کبھار دوا ختم ہو جاتی ہے۔ بچوں کو لانی یاد نہیں رہتی۔ بزرگ بتاتے نہیں۔ اور دوا میں مختلف قسم کے ناغے شروع ہو جاتے ہیں۔

8. معاشی مسائل۔ کبھی بچوں کا ہاتھ تنگ ہوتا ہے اور وہ مکمل دوا نہیں لے پاتے۔ کچھ بزرگ اپنی معصومیت میں اپنے بچوں کی بچت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، دوا میں کمی کر کے۔ کچھ بچوں پہ بوجھ نہیں بننا چاہتے۔ کچھ گھروں میں گھریلو ناچاقیاں ہوتی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔

9. ادویات کے مظر اثرات/ سائیڈ افیکٹس کی وجہ سے کئی لوگ دوا لینے سے کتراتے ہیں۔

10. ضعیف ہونے کی وجہ سے کئی بار لوگ دوا لینا بھول جاتے ہیں۔ ان سے پوچھا جائے تو وہ جواب 'شاید' کی صورت میں دیتے ہیں۔

ان سب وجوہات کا ثمر ایک ہی ہے؛ بڑے بوڑھوں کی صحت میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔
دوا میں باقاعدگی لانے سے کئی مسائل اور ایمرجنسی صورتحال سے بچا جا سکتا ہے۔
اور اس کیلیے خاندان کے باقی افراد، جو جوان اور تندرست و توانا ہیں، انہیں اپنا حصہ ڈالنا پڑتا ہے۔

1. گھر میں ایک یا دو لوگ متعین کریں۔ اور ان کو ذمہ داری اٹھانی پڑے گی۔ بیماری کی تفصیل، علاج کے لوازمات، تمام دواؤں کی تفصیل، نسخوں کی ترتیب، وغیرہ کا انہیں پتا ہونا چاہیے۔ کہنے کو یہ مشکل کام لگتا ہے؛ لیکن ہے نہیں۔ کچھ ہی دنوں میں سب سمجھ آ جاتا ہے۔

2. مریض کو وقت پہ دوا دی جائے۔ ان کو دوا نکال کے دیں، پانی لا کے دیں اور اگر وہ ناراض بھی ہوں تو برا مت مانیں۔ وہ مریض بھی ہیں اور ضعیف بھی۔ بہلا پھسلا کے، سمجھا کے، باتوں میں لگا کے انہیں دوا کھلا دیں۔

3. کم پڑھے لکھے ہونے کی وجہ سے یا زیادہ ضعیف ہو جانے سے کچھ بزرگ اپنی ادویات کی مقدار کو غلطی سے اوپر نیچے کر لیتے ہیں۔ یہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اس لیے کوشش کریں کہ انہیں دوا خود دیں۔

4. کئی بار ہماری کوشش ہوتی ہے کہ بزرگوں کو ان کی بیماری کے بارے میں کچھ پتا نہ چلے۔ اکثر گھر والے معالج کو بھی آ کے کہتے ہیں: آپ نے والد صاحب / والدہ صاحبہ کو کچھ نہیں بتانا، وہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ یہ فلسفہ ش*ذ و نادر تو ٹھیک ہو سکتا ہے لیکن اکثر غلط ہی ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اگر مریض کو پتا ہی نہیں ہو گا کہ وہ یہ دوائیں کھا کس لیے رہے ہیں، تو وہ دوا سے تنگ بھی آئیں گے اور چھوڑ بھی دیں گے۔ یہ نہایت اہم ہوتا ہے کہ مریض کو حقیقت سے آگاہ کیا جائے؛ وہ پریشان ہوں گے بھی تو کچھ دن کیلیے۔ لیکن زیادہ تر بزرگ سمجھ ہی جاتے ہیں اور پھر باقاعدگی سے علاج بھی کراتے ہیں اور دوا پہ توجہ دیتے ہیں۔

5. اگر آپ تنگ دست ہیں اور دوا کے اخراجات کو پورا نہیں کر سکتے تو اس سے پریشان مت ہوں۔ متعدد اور راستے ہوتے ہیں جن سے کم قیمت یا مفت دوا حاصل کی جا سکتی ہے۔ مثلاً آپ اپنے معالج سے کہہ سکتے ہیں کہ سستی اور محدود دوا تجویز کریں۔ گورنمنٹ ہسپتالوں سے دو سے چار ہفتوں کیلیے کئی ادویات مفت مل جاتی ہیں۔ اس کے بعد دوبارہ معائنہ کرا کے دوا دوبارہ بھی لی جا سکتی ہے۔ کئی مخیر حضرات اور فلاحی تنظیمیں بھی اس کام میں مدد کر دیتی ہیں۔ معاشی مشکلات میں اپنے اردگرد کے ماحول اور سہولیات کے مطابق دوا کا انتظام کریں۔ آپ پہ بوجھ بھی نہیں پڑے گا اور علاج جاری رہے گا۔

6. کچھ لوگ ادویات میں بچت کرنے کی کوشش میں اپنی صحت خراب کر لیتے ہیں۔ یہ یاد رکھیں کہ جب بھی کوئی زیادہ بیمار ہوتا ہے تو ایمرجنسی میں دگنا خرچہ ہو جاتا ہے۔ دانستہ یا غیر دانستہ طور پہ کی گئی بچت سب ضائع ہو جاتی ہے۔

7. مہینے کے شروع میں یا اختتام پہ خود بزرگوں کی ادویات کی خبر لیں۔ کون سی دوا کتنی استعمال ہوئی، ختم تو نہیں ہو گئی، کون سی دوا لانے والی ہے، کس دوا سے انہیں مسئلہ پیش آ رہا ہے، وغیرہ۔ اس سے ان کی دوا کی مقدار بھی پوری رہے گی، آپ کو بھی پتا ہو گا کی وہ ٹھیک سے دوا استعمال کر رہے ہیں یا نہیں اور آپ ان کے مسائل سے بھی آگاہ رہیں گے۔ اور وہ بھی فخر محسوس کریں گے کہ ان کے بچے ان کا خیال رکھتے ہیں۔

8. نیوکلیئر فیملی میں رہ کے بھی آپ ان چیزوں کی خبر رکھ سکتے ہیں۔ فون، انٹرنیٹ، واٹس ایپ، وڈیو کال وغیرہ نے فاصلے مٹا دیے ہیں۔ اپنے بڑوں کو وقتاً فوقتاً کال کریں اور ان کی تیمار داری کریں۔ ان کے مسائل کی تفصیلات جانیں۔ ان کے حل کیلیے ان سے مشورہ کریں۔ ڈیلیوری سروسز اور مختلف ایپ کے ذریعے آپ انہیں ادویات گھر کی دہلیز پر پہنچا سکتے ہیں۔ لیبارٹری ٹیسٹ کرانے ہوں تو ہوم سیمپلنگ کرائی جا سکتی ہے۔ ہسپتال جانا ہو تو رائڈ بک کرا دیں۔ آپ کا ان کے ساتھ رابطے میں رہنا ہی ان کیلیے بہت ہے۔

بزرگ افراد بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں۔
انہوں نے اپنا کام کر دیا، اپنا حصہ ڈال دیا۔
اب انہیں کوئی خیال رکھنے والا چاہیے۔ توجہ چاہیے۔ اور زیادہ نہیں۔ چند لمحے خلوص کے، پیار کے، نرم لہجے کے۔
یہ بس اسی سے خوش ہو جاتے ہیں۔ اور دن بھر دعائیں دیتے ہیں۔
اپنے بزرگوں کا خیال رکھیں۔ خواہ آپ نیوکلیئر فیملی میں رہتے ہوں یا جوائنٹ فیملی میں۔
اللہ سے دعا مانگیں کہ وہ آپ کو اس کام کی توفیق دے۔

Ramadan and Heart patientsماہ رمضان اور امراض قلب کے مریضماہ رمضان کی آمد آمد ہے۔اس بابرکت مہینے کا مسلمانوں کو پورا سال...
10/03/2024

Ramadan and Heart patients

ماہ رمضان اور امراض قلب کے مریض

ماہ رمضان کی آمد آمد ہے۔
اس بابرکت مہینے کا مسلمانوں کو پورا سال انتظار رہتا ہے۔
اور اس ماہ میں وہ جوش و ولولے سے روزہ رکھنے، تراویح پڑھنے اور دیگر عبادات کا اہتمام کرتے ہیں۔

اس سب میں اس امر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ان عبادات کیلیے تندرست و توانا ہونا پڑتا ہے اور اچھی قوت برداشت کا بھی ہونا لازمی ہے۔
ساتھ ہی جسمانی اعضاء کا ٹھیک طرح سے کام کرنا اور روزہ رکھنے کی جسمانی مشقت کے لوازمات کو پورا کر پانا بھی شرط ہے۔
کچھ دائمی بیماریوں کی بناء پر اعضاء کمزور پڑ جاتے ہیں اور جب کبھی ان پر معمول سے ہٹ کے زیادہ بوجھ ڈالا جاتا ہے تو وہ عضو کام چھوڑ دیتا ہے؛ ایسے میں مریض کی طبیعت یک دم بگڑ جاتی ہے۔

امراض قلب کے بیشتر مریضوں کا یہ سوال ہوتا ہے کہ کیا ہم روزہ رکھ سکتے ہیں۔
اس کا جواب سادہ بھی ہے اور کمپلیکس بھی۔
لیکن اس مضمون کو عوام الناس کیلیے آسان رکھنے کیلیے ہم مریضوں کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

1. ایسے مریض جو روزہ نہیں رکھ سکتے۔
اس کیٹیگری میں وہ مریض شامل ہوتے ہیں جن کے دل کی سکت، قوت اور حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کے وہ لمبی مشقت برداشت کر سکیں۔
مثلاً
۔ ہارٹ فیلیئر کے وہ مریض جن کا سانس یا تو مسلسل پھولا رہتا ہے یا معمولی مشقت (یعنی روزمرہ کے معمول کے کام جیسا کے بیت الخلاء جانا، گھر کے اندر چلنا یا لیٹنے سے سانس پھول جانا) سے سانس کا پھول جانا۔ ایسے مریضوں کا دل روزہ رکھنے کو نہیں سہار سکتا۔

۔ ہارٹ فیلیئر کے وہ مریض جن کی سوجن دوا کے باوجود کم نہ ہوتی ہو، پیٹ میں یا چھاتی میں پانی بھر جاتا ہو۔

۔ ہارٹ فیلیئر کے وہ مریض جن کو سانس کے مسئلے کی وجہ سے وقتاً فوقتاً ہسپتال کی ایمرجنسی جانا پڑتا ہو۔

۔ ایسے مریض جنہیں پچھلے چند ماہ میں دل کا دورہ (ہارٹ اٹیک) پڑا ہو۔
ان مریضوں کا دل عموماً کمزور ہو جاتا ہے اور روزہ رکھنے سے اس پہ مزید بوجھ پڑتا ہے؛ اس سے دوبارہ ہارٹ اٹیک ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اور یہ مریض ہارٹ فیلیئر میں بھی جا سکتے ہیں۔

۔ ایسے مریض جن کو دل کے مسائل سے بے ہوشی ہو جاتی ہو۔

۔ دل کے وہ مریض جن کے ویلو (valves) یا تو زیادہ تنگ ہوں یا زیادہ لیک کر رہے ہوں۔
مثلاً
Severe mitral stenosis
Severe mitral regurgitation
Severe aortic stenosis
Severe aortic Regurgitation
Severe pulmonary hypertension

۔ وہ مریض جن کو معمولی کام یا مشقت سے انجائنا کی شکایت ہو جاتی ہو۔
مثلاً تھوڑا سا چلنے پہ چھاتی پہ درد یا بوجھ کا آ جانا۔

۔ جن مریضوں کے کچھ دن پہلے سٹینٹ ڈلے ہوں انہیں روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔
اس میں ماہرین کی متضاد آرا سامنے آتی ہیں۔
خطرہ یہ ہوتا ہے کہ کئی گھنٹے بھوکا رہنے کی وجہ سے خون گاڑھا ہو جاتا ہے اور شریانوں اور سٹینٹ میں جم سکتا ہے؛ اس سے ہارٹ اٹیک ہو سکتا ہے۔
محتاط رہنے کیلیے سٹینٹ ڈلنے کے تین سے چھ ماہ بعد روزہ رکھا جا سکتا ہے۔

۔ جن مریضوں کا بائی پاس آپریشن ہوا ہو انہیں مکمل صحت یاب ہونے کے بعد ہی روزہ رکھنا چاہیے۔
اس میں تین سے چھ ماہ درکار ہو سکتے ہیں۔

۔ جن مریضوں کا آپریشن کے ذریعے ویلو تبدیل کیا گیا ہو (MVR, AVR) انہیں اپنے معالج سے مشورہ کرنے بعد ہی روزہ رکھنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
ان مریضوں کیلیے آئی این آر (INR) ٹیسٹ کا سٹیبل ہونا بھی لازم ہے۔

۔ جن مریضوں کی دل کی دھڑکن بار بار بے ترتیب ہو جاتی ہو، یا جن کو دل کی دھڑکن کے مسائل کی بناء پر بارہا ہسپتال کی ایمرجنسی جانا پڑتا ہو، انہیں روزہ رکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔

2. امراض قلب میں مبتلا وہ مریض جو روزہ رکھ سکتے ہیں
۔ وہ لوگ جن کی علامات دوا پہ سٹیبل ہوں۔ ان کا سانس نہ پھولتا ہو، وہ بغیر وقفہ کیے لمبا چل سکتے ہوں، روزانہ واک کرتے ہوں، انجائنا دواؤں پہ اچھا کنٹرول ہو، وغیرہ

۔ ہارٹ فیلیئر کے ایسے مریض جو دوا کے ساتھ ٹھیک رہ رہے ہوں، جن کا سانس چلنے سے یا لیٹنے پہ نہ پھولتا ہو، جنہیں ہارٹ فیلیئر کے مسائل کی وجہ سے پچھلے کم از کم 3 ماہ میں ہسپتال کی ایمرجنسی میں جانے کی ضرورت پیش نہ آئی ہو۔

۔ ایسے مریض جنہیں ہارٹ اٹیک ہوئے کم از کم 6 ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہو اور جن کی طبیعت دوا اور علاج سے ٹھیک چل رہی ہو۔
ایسے مریضوں کی علامات نہ ہونے کے برابر ہوں، تو ہی وہ روزہ رکھیں۔ اگر انہیں انجائنا کی شکایت ہوتی ہو، سانس پھول جاتا ہو یا ہارٹ فیلیئر کی علامات ہوں تو انہیں روزہ رکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔

۔ ایسے مریض جن کی دل کی دھڑکن شاز و نادر خراب ہوتی ہے اور پچھلے چند ماہ میں انہیں دھڑکن کے مسائل نہ ہونے کے برابر ہوئے ہوں، وہ روزہ رکھ سکتے ہیں۔

۔ سٹینٹ ڈلنے کے 3 سے 6 ماہ بعد، طبیعت ٹھیک رہتی ہو، تو روزہ رکھا جا سکتا ہے۔

۔ بائی پاس آپریشن کے بعد طبیعت جب بحال ہو جائے، تو روزہ رکھیں۔

۔ دل کے ویلو کے وہ مریض جن کی بیماری کی شدت معمولی درجے یا درمیانے درجے کی ہو، وہ روزہ رکھ سکتے ہیں۔
مثلاً
Moderate Aortic Regurgitation
Mild MR
Mild MS
وغیرہ

یہاں اس بات پہ زور دینے کی بھی ضرورت ہے کہ ہم میں سے کئی لوگ روزہ تو رکھ لیتے ہیں لیکن پرہیز کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔
روزہ ضرور رکھیں، لیکن معالج کی بتائی ہوئی پرہیز اور احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھیں۔
تلی ہوئی اشیاء (مثلاً پکوڑے، سموسے، کچوریاں، وغیرہ)، مرغن غذا، پراٹھا، گھی اور مکھن کا استعمال، سوڈا، اور پر تعیش افطاریاں؛ سب منع ہیں۔
یہ سب اشیاء رمضان میں بھی اسی طرح امراض قلب کے مریضوں کیلیے مظر ہیں جیسا کہ غیر رمضان میں۔
سارا دن بھوک پیاس کاٹنے کا کیا فائدہ اگر افطار کے وقت دگنی بد پرہیزی کرنی ہو۔

تراویح:
امراض قلب کے وہ مریض جو روزانہ واک اور ورزش کرتے ہوں اور اس سے ان کا سانس نہ پھولتا ہو، انجائنا نہ ہوتا ہو، جن کا ہارٹ فیلیئر اچھا کنٹرول ہو، وہ کھڑے ہو کے تراویح کی نماز ادا کر سکتے ہیں۔
لیکن وہ مریض جن کو مشقت کے ساتھ علامات ہوتی ہوں یا جن کی قوت برداشت اچھی نہ ہو، انہیں تراویح کی نماز بیٹھ کے ادا کرنی چاہیے۔

اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ سحر اور افطار کے اوقات میں کھانا ہاتھ روک کے کھائیں۔
یک دم پیٹ بھر کے نہ کھائیں۔
افطار کے بعد وقفے وقفے سے تھوڑا تھوڑا کر کے کھائیں؛ تاکہ اس وقت نظام ہضم کی اضافی ضروریات کو یک دم پورا کرتے ہوئے کہیں دل پہ بوجھ نہ پڑ جائے۔

دوا کا استعمال:
روزہ ضرور رکھیں۔
اور سحر اور افطار کے اوقات میں اپنی دوا کو باقاعدگی سے استعمال کریں۔
روزہ آپ کو کسی دوا کے استعمال سے نہیں روکتا۔
دوا میں ناغہ کرنے سے رمضان میں کئی مریضوں کی حالت بگڑ جاتی ہے۔

رمضان کے اس با برکت مہینے میں خوب عبادت کریں۔ لیکن جوش و ولولے میں اپنے مسائل کو مت بھولیں۔
ذرا سی لاپرواہی سے بیمار ہو کے آپ تو ہسپتال پہنچیں گے ہی۔ ساتھ میں آپ کی فیملی کا رمضان بھی ڈسٹرب ہو جائے گا۔ اور ان کے روزے اور نمازیں بھی جائیں گی۔

Complete Heart Block(slow heart rate)Causes, Symptoms and Treatment(Pacemaker)ہارٹ بلاک(دل کی دھڑکن آہستہ ہو جانا)وجوہات...
02/03/2024

Complete Heart Block
(slow heart rate)
Causes, Symptoms and Treatment
(Pacemaker)

ہارٹ بلاک
(دل کی دھڑکن آہستہ ہو جانا)
وجوہات، علامات اور علاج
(پیس میکر)

دل کی دھڑکن زیادہ آہستہ ہو جانے کو ہارٹ بلاک کا نام دیا جاتا ہے۔
ہارٹ بلاک کو تین درجات میں تقسیم کیا جاتا ہے اور تھرڈ ڈگری (یعنی تیسرا درجہ) کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔
ہارٹ بلاک کی صورت میں جسم کی ضروریات پوری نہیں ہو پاتیں اور اس کی وجہ سے کئی علامات نمودار ہوتی ہیں۔ مثلاً
1. سانس پھول جانا۔ ہلکی پھلکی مشقت کرنے سے، حتیٰ کہ تھوڑا سا چلنے پہ بھی سانس بہت زیادہ پھول جاتا ہے۔ اس سے زیادہ تر مریضوں کے معمولات زندگی شدید متاثر ہوتے ہیں کیونکہ کپڑے بدلنا، رفع حاجت کیلیے جانا، وغیرہ بھی مشقت والے کام لگنے لگ جاتے ہیں اور مریض بستر پہ آرام کرنء کو ترجیح دیتے ہیں۔
2. چکر آنا۔ ہارٹ بلاک سے متاثر زیادہ تر لوگوں کو چلنے پھرنے پہ چکر آتے ہیں۔ لیکن دل کی دھڑکن اگر زیادہ سست ہو جائے تو کچھ لوگوں کو بیٹھے ہوئے بھی چکر آ سکتے ہیں۔
3. بے ہوش ہو جانا۔ دھڑکن کی رفتار زیادہ کم ہو جانے سے بے ہوشی ہو سکتی ہے۔ اس سے ایک بڑا خطرہ یہ ہے کہ بے ہوش ہونے سے مریض کسی حادثے کا شکار ہو سکتا ہے۔ مثلاً گاڑی چلاتے ہوئے، سڑک پار کرتے ہوئے، سیڑھیاں اترتے ہوئے، وغیرہ۔
4. انجائنا (دل کا درد) ہونا۔ کچھ لوگوں کو دل کی دھڑکن آہستہ ہونے سے انجائنا شروع ہو جاتا ہے۔ ایسے مریضوں کو ہارٹ اٹیک ہونے کا رسک بھی ہوتا ہے۔
5. دل کی دھڑکن بہت کم ہو جائے تو اچانک موت واقع ہو سکتی ہے۔

ہارٹ بلاک ہونے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔
1. عمر کے ساتھ دھڑکن کے نظام کا کمزور ہو جانا۔ یہ ہارٹ بلاک ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

2. کچھ ادویات: مثلاً بیٹا بلاکر (Beta blockers)، کیلشیئم چینل بلاکر (Calcium Channel Blockers)، ڈائیجوکسن (Digoxin)، وغیرہ۔ یہ ادویات امراض قلب کے مریضوں میں عموماً استعمال کی جاتی ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں کا دھڑکن کا نظام قدرے کمزور ہوتا ہے اور ان کو ان ادویات سے ہارٹ بلاک ہو سکتا ہے (اس صورتحال میں ان دواؤں کو ایڈجسٹ کرنے سے ہارٹ بلاک ٹھیک ہو جاتا ہے).

3. ہارٹ اٹیک کے بعد۔ کچھ مریضوں کو ہارٹ اٹیک ہونے کی وجہ سے دھڑکن کا نظام کمزور ہو جاتا ہے۔

4. چند موروثی بیماریاں۔ مثلاً Muscular Dystrophy, Duchene and Becker's muscular dystrophy, Myotonic muscular dystrophy، وغیرہ ۔

5. آٹو امیون بیماری (Auto immune disease)۔
مثلاً ایس ایل ای (SLE)، گینٹھیا (Rheumatoid Arthritis)، سکلیروڈرما (Scleroderma)، Ankylosing Spondylitis، وغیرہ۔

6. چند انفیکشن۔ مثلاً انفیکٹیو اینڈوکارڈائیٹس (Infective Endocarditis)، لائم ڈذئیذ (Lyme Disease)، وغیرہ۔

7. دل کے ویلو کے مسائل (Valvular Heart Disease)

8. دل کے بائی پاس آپریشن یا ویلو کے آپریشن کے بعد۔ اینجیوپلاسٹی کے بعد۔

9. چند کینسرز کے ساتھ بھی ہارٹ بلاک دیکھا گیا ہے۔ مثلاً ملٹیپل مائیلوما (Multiple Myeloma).

10. اس کے علاوہ بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مثلاً امائلوڈوسز (Amyloidosis)، سارکوئیڈوسز (Sarcoidosis)، وغیرہ۔

11. جسم اور خون میں نمکیات کا تناسب خراب ہونا ہارٹ بلاک کی ایک بڑی وجہ ہے۔ یہ چیز گردے کے مرض میں مبتلا مریضوں میں عموماً دیکھی جاتی ہے۔

12. تھائیرائیڈ کی بیماری بالخصوص ہائیپوتھائیرائیڈازم (hypothyroidism) میں بھی ہارٹ بلاک دیکھا جاتا ہے۔

اگر کسی مریض کو ہارٹ بلاک ہو تو معالج پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کوئی ایسی وجہ تو نہیں کہ جس کو ٹھیک کرنے سے ہارٹ بلاک ٹھیک ہو جائے۔ مثلاً ادویات کو ایڈجسٹ کرنا، انفیکشن کنٹرول کرنا، دل کی شریانوں کی بندش / بیماری کو اینجیوپلاسٹی یا بائی پاس سے ٹھیک کرنا، وغیرہ۔
اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ آیا مریض کی دھڑکن کو درست کرنے کیلیے دوا یا پیس میکر (pacemaker) کی ضرورت ہے یا نہیں۔ اس علاج کا دار و مدار مریض کی علامات، معائنے پہ ملنے والی معلومات، بلڈ پریشر، ای سی جی، ایکوکارڈیوگرافی اور بقیہ ٹیسٹ پہ منحصر ہوتا ہے۔

اگر ہارٹ بلاک کسی مخصوص وجہ سے ہو رہا ہو تو اس وجہ کو ٹھیک کرنے سے دل کی دھڑکن واپس معمول پہ آ جاتی ہے۔
لیکن کئی افراد میں ہارٹ بلاک مستقل ہو جاتا ہے اور ایسے مریضوں کو پیس میکر (pacemaker) کی ضرورت پڑتی ہے۔
پیس میکر ایک آلہ ہے جس کا جینریٹر (generator) ایک چھوٹے سے آپریشن کے ذریعے جلد کے نیچے ڈال دیا جاتا ہے۔
اس میں سے ایک یا دو تاریں نکلتی ہیں جو دل کے خانے میں ڈالی جاتی ہیں۔
پیس میکر میں سینسر موجود ہوتے ہیں جو مریض کی دھڑکن اور جسمانی ضروریات کو جانچتے ہیں۔ پھر پیس میکر دل کی دھڑکن کو جسمانی ضرورت کے مطابق ایڈجسٹ کر دیتا ہے۔
عموماً پیس میکر کی لائف 8 سے 12 سال ہوتی ہے اور اس کے بعد اس کے جینریٹر کو تبدیل کر دیا جاتا ہے۔

ہارٹ بلاک مریض کی کوالٹی آف لائف کو بے حد متاثر کرتا ہے۔
علاج سے یہ باآسانی ٹھیک ہو سکتا ہے اور مریض اس کے بعد سکھ کا سانس لیتے ہے۔

اگر آپ کے اردگرد کسی کو جلد تھکاوٹ ہو جاتی ہو، غیر معمولی طور پہ سانس پھولتا ہو یا چکر آتے ہوں تو ان کی کم از کم ای سی جی (ECG) ضرور کرائیں۔

Family history of premature coronary artery diseaseموروثی اور خاندانی طور پہ بننے والی دل کی شریانوں میں بیماریدل کی شری...
25/02/2024

Family history of premature coronary artery disease

موروثی اور خاندانی طور پہ بننے والی دل کی شریانوں میں بیماری

دل کی شریانوں میں بننے والی بیماری سے شریانیں تنگ ہو جاتی ہیں اور دل کو اس کی ضرورت کے تحت خون مہیا نہیں ہوتا۔
اس سے انجائنا، ہارٹ اٹیک اور ہارٹ فیلیئر جیسے امراض لاحق ہوتے ہیں۔

شریانوں میں بیماری بننے کی بہت سی وجوہات ہیں۔
ان میں سے ایک وجہ موروثیت بھی ہے۔
یہاں موروثیت سے مراد اول درجے کے رشتے دار ہوتے ہیں؛ والدین، بہن بھائی اور بچے۔
اس درجہ بندی میں دادا، دادی، نانا نانی، چچا، ماموں، پھوپی اور خالہ کو عموماً شامل نہیں کیا جاتا۔

اسی طرح اس چیز کو بھی مدنظر رکھنا ہوتا ہے کہ ان اول درجے کے رشتے داروں کو عمر کے کس حصے میں دل کی شریانوں کا مسئلہ ہوا (مثلاً پہلا ہارٹ اٹیک ہونے پہ ان کی عمر کیا تھی؟)۔
امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن، امریکن کالج آف کارڈیالوجی (AHA/ACC) اور یورپین سوسائٹی آف کارڈیالوجی (ESC) کے مطابق اگر مرد رشتہ دار کو پچپن (55) سال کی عمر سے کم اور خاتون رشتے دار کو پینسٹھ (65) سال کی عمر سے کم میں دل کی بیماری لاحق ہوئی تھی تو اس سے آپ کا موروثی رسک بڑھ جاتا ہے۔
ایسے لوگوں میں شریانوں میں بیماری بننے کی شرح بھی زیادہ ہوتی ہے اور اس بیماری کی شدت بھی۔
ان لوگوں کو شروع سے ہی اچھی عادات اپنانی چاہیے؛ معمول سے ورزش کرنا، خوراک میں پرہیز کرنا، تمباکو نوشی ترک کرنا اور چالیس (40) سال کی عمر کے بعد اپنا چیک اپ کروائیں؛ تاکہ اگر کوئی مسئلہ بن رہا ہو تو ابتدائی سٹیج پہ ہی اس کا تدارک کیا جا سکے۔

آج آپ نے اپنی فیملی ہسٹری کو دیکھنا ہے۔
اگر آپ کے کسی بھی اول درجے کے رشتے دار کو کم عمری میں دل کا مسئلہ ہوا تھا، تو آپ کا رسک بھی زیادہ ہے۔

Address

Rawalpindi
46000

Telephone

+923355136555

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr Muhammad Mohsin Cardiologist posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Category