
18/06/2024
Peripartum Cardiomyopathy: weakening of heart function in the late stages of or soon after pregnancy
پیری پارٹم کارڈیومائیوپیتھی : دل کے پٹھے کا حمل کے آخری مراحل میں یا حمل کے کچھ عرصے بعد کمزور ہو جانا
پیری پارٹم کارڈیومائیوپیتھی حاملہ خواتین کی بیماری ہے۔
اس میں حمل کے آخری ماہ سے لے کر ڈیلیوری کے پانچ ماہ بعد تک دل کا پٹھا کمزور ہو جاتا ہے۔
نارمل دل کا فنکشن 55% سے 80% تک ہوتا ہے۔
جبکہ پیری پارٹم کارڈیومائیوپیتھی میں ایجیکشن فریکشن عموماً 45% سے کم ہو جاتا ہے (سب سے شدید علامات ان خواتین میں دیکھی جاتی ہیں جن کا ایجیکش فریکشن 30% یا اس سے کم ہو).
اس وجہ سے متاثرہ خواتین ہارٹ فیلیئر کی علامات کے ساتھ اپنے معالج کے پاس جاتی ہیں۔
پیری پارٹم کارڈیومائیوپیتھی 1000 سے 4000 حاملہ خواتین میں سے کسی 1 کو ہوتا ہے۔
پیری پارٹم کارڈیومائیوپیتھی کے رسک فیکٹرز
1. خاتون کی عمر 30 سال سے زیادہ ہونا
2. دوسرا، تیسرا یا اس سے زیادہ بار حمل ہونا
3. افریقی نژاد ہونا
4. حاملہ خواتین کا وزن کم ہونا یا خوراک کی کمی ہونا
5. سگریٹ نوشی یا تمباکو نوشی کرنا
6. حاملہ خواتین کا بلند فشار خون/ ہائی بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا ہونا
پیری پارٹم کارڈیومائیوپیتھی کی علامات
1. سانس پھولنا
2. لیٹنے پہ کھانسی شروع ہو جانا
3. لیٹنے پہ دم گھٹتا ہوا محسوس ہونا
4. پاؤں اور ٹانگوں پہ سوجن ہونا
5. چلنے پہ دشواری ہونا
6. چکر آنا یا بےہوش ہو جانا
7. دل کی دھڑکن زور سے یا بے ترتیب محسوس ہونا
8. بھوک کم ہو جانا یا متلی ہونا
یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ سب علامات حمل میں ویسے بھی ہو سکتی ہیں اور ضروری نہیں کہ ان علامات والی ہر حاملہ خاتون کو پیری پارٹم کارڈیومائیوپیتھی ہی ہو۔
لیکن اگر یہ علامات حمل کے پہلے مراحل کی نسبت زیادہ شدید ہونا شروع ہو جائیں تو اپنے معالج سے ضرور رجوع کریں
پیری پارٹم کارڈیومائیوپیتھی کی تشخیص دل کے سپیشلسٹ/ کارڈیالوجسٹ کرتے ہیں اور گائناکالوجسٹ کے ساتھ مل کے متاثرہ خواتین کا علاج کیا جاتا ہے۔
اس کی تشخیص کیلیے
ای سی جی،
ایکوکارڈیوگرافی
اور
بی این پی (بلڈ ٹیسٹ)
انتہائی اہم ہیں۔
اس کے علاوہ چھاتی کا ایکس رے، دل کا سی ٹی سکین یا ایم آر آئی اور متعدد اور بلڈ ٹیسٹ بھی کیے جا سکتے ہیں۔
اس کا علاج عموماً ادویات کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
لیکن اگر متاثرہ خاتون کا ہارٹ فیلیئر زیادہ شدید ہو تو انہیں ہسپتال میں داخل کر کے علاج کی ضرورت پڑتی ہے۔
پیری پارٹم کارڈیومائیوپیتھی میں شرح اموات 2% سے لے کر 24% تک ہے (مختلف تحقیقاتی جریدوں سے لیے گئے اعداد و شمار).
ان میں وہ خواتین زیادہ رسک پہ ہوتی ہیں جن کا ایجیکش فریکشن 35% سے کم ہو۔
ریکوری:
71% خواتین کا ایجیکش فریکشن علاج کے ساتھ بہتر ہو کہ 50% سے زائد ہو جاتا ہے اور ان کی علامات بھی ٹھیک ہو جاتی ہیں (بہتری آنے کے اس عمل میں کئی ماہ لگتے ہیں)۔
13%خواتین کا ایجیکش فریکشن مسلسل گرتا چلا جاتا ہے یا ٹھیک نہیں ہوتا۔
ان خواتین میں پیچیدگیاں پیدا ہونے کا رسک زیادہ ہوتا ہے۔ یہ خواتین ترقی یافتہ ممالک میں ہارٹ ٹرانسپلانٹ یا ایل ویڈ تھراپی (LVAD) پہ جاتی ہیں - لیکن یہ سہولت پاکستان میں ابھی موجود نہیں ہے۔
باقی ماندہ 16% خواتین کا ایجیکش فریکشن بہتر تو ہو جاتا ہے لیکن مکمل ٹھیک نہیں ہوتا اور انہیں لمبے عرصے تک زیر علاج رہنا چاہیے۔
جن خواتین کو ایک بار پیری پارٹم کارڈیومائیوپیتھی ہو چکی ہو ان کو اگلے حمل میں یہ بیماری دوبارہ ہونے کا رسک 50% تک ہوتا ہے۔
اس میں بھی ان خواتین کا رسک زیادہ ہوتا ہے جن کا ایجیکش فریکشن پوری طرح ریکور نہ کیا ہو۔
اس سلسلے میں اگر آپ کو دوبارہ حمل پلان کرنا ہے تو اپنی گائناکالوجسٹ اور کارڈیالوجسٹ سے تفصیلاً مشورہ کریں، رسک کو جانیں اور پھر فیصلہ کریں۔
اگلا حمل ہونے پہ ایسی خواتین کا ہر ماہ ایکوکارڈیوگرافی کے ذریعے کارڈیالوجسٹ معائنہ کرتے ہیں اور اگر مسئلہ دوبارہ بن رہا ہو یا شدید ہو رہا ہو تو ماں کی صحت اور زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے حمل کو روکنا پڑ سکتا ہے۔
پیری پارٹم کارڈیومائیوپیتھی ایک ایسی بیماری ہی جس کی تشخیص اچانک اور غیر متوقع طور پہ ہوتی ہے۔
حمل یا ڈیلوری کے فوراً بعد بڑھی ہوئی زمہ داریاں اور خاندان کی توقعات متاثرہ خاتون پہ شدید ذہنی تناؤ ڈالتی ہیں (اور وہ پہلے ہی جسمانی مرض کی وجہ سے کمزور بھی ہو جاتی ہیں)۔
اس صورت میں ان کا خیال رکھنا، حوصلہ بڑھانا اور موزوں علاج کرانا تمام گھر والوں کی دمہ داری ہے۔