
22/09/2024
ڈینگی وائرس پھیلانے والا مچھر گندگی میں نہیں بلکہ گھروں میں رہتا ہے۔ گھر کے اندر پانی کے ٹینک، غسل خانوں اور جہاں بھی پانی کسی بالٹی، ڈرم یا گھڑوں میں رکھا جاتا ہے وہاں یہ مچھر پایا جاتا ہے۔ ڈینگی وائرس پھیلانے والا مچھر سورج طلوع ہونے سے چند گھنٹے قبل اور غروب ہونے کے چند گھنٹے بعد اپنی خوراک کی تلاش میں نکلتا ہے۔ ڈینگی وائرس کے جسم میں داخل ہونے کی علامات میں نزلہ زکام، بخار، سر درد، منہ اور ناک سے خون آنا، پیٹ کے پیچھے کمر میں درد ہونا اور جسم پر سرخ دانے وغیرہ نکلنا شامل ہیں اور اسے اگر فوری طور پر کنٹرول نہ کیا جائے تو پھر ’ڈینگی ہیمرج فیور ‘ شروع ہوتا ہے جو جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے صحت کے ادارے کی ایک حالیہ رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ دنیا کے ایک سو کے قریب ممالک میں ڈینگی وائرس پھیلانے والے اڑتیس اقسام کے مچھر ہیں جس میں سے پاکستان میں ان میں سے صرف ایک قسم کا مچھر پایا جاتا ہے۔ دنیا کی چالیس فیصد آبادی اس بیماری میں مبتلا ہے اور ہر سال پانچ کروڑ کیسزسامنے آتے ہیں جس میں سے پوری دنیا میں سالانہ پندرہ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ احتیاطی تدابیر پر عمل کرکے اس مرض کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے۔
مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے کئیر لیبارٹریز کی جانب سے اس کے تمام ٹیسٹوں پر%35 تک رعایت حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ رعایت صرف ڈاکٹر صاحبان کے نسخہ پر دی جائیگی۔