29/10/2020
مسلمانوں کے کسی ملک، شہر یا گاؤں میں فاقہ زدگی کا عالم نہیں تھا۔ اپنے کھیت کھلیان اور کاروبار و مزدوریاں چھوڑ کریہ لوگ یورپ پہنچے۔ اس معاشی ہجرت کی جو قیمت ان لوگوں نے ادا کی ہے اس کی کہانیاں سنانے لگوں تو کئی دنوں تک شامِ غریباں کا سماں طاری رہے۔ ان میں سے ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسے مسجد میں جا کر نماز پڑھنے کی اجازت ہے تو یہ سب سے بڑی رعایت ہے، جو اسے میسر آچکی ہے۔ لیکن اس رعایت کے بدلے جو نسلیں پروان چڑھیں ہیں، انہوں نے آج سے پچاس سال پہلے ہی والدین کو پاگل کر دیا تھا۔ برطانیہ کے شہر بریڈفورڈ میں 1969ء میں ایک نفسیاتی مریضوں کا ہسپتال کھولا گیا جس کا نام تھا "Trans cultural unit of psychiatry"۔ اس ہسپتال میں مسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں کو رکھا جاتا ہے جو دولت کمانے یہاں آئے اور جب انکی اولاد جوان ہو گئی اور وہ مغرب کی اخلاقیات میں رچ بس گئی تو انہیں دیکھ کر ان کا ذہنی توازن بگڑ گیا۔ گھرانوں کے گھرانے اور نسلوں کی نسلیں ایسی برباد ہوئیں کہ ہر کوئی ایک دوسرے سے منہ چھپانے لگا۔ دنیا کے کسی بھی تحقیقی ادارے، خصوصاً "PEW" کی ریسرچ رپورٹیں اٹھا لیں انہیں پڑھ کر آپ کے پاؤں تلے زمین نکل جائیگی۔
ہجرت کرنیوالے مسلمان برباد ہوئے تو ایسے کہ یورپ میں پیدا ہونے والی جسم فروش عورتوں میں ان کی اکثریت ہو گئی اوران میں جو کامیاب ہوئے تو ایسے کہ انہیں اپنا دین، مذہب سب چھوڑنا پڑا۔ مسلمان جن ممالک میں جمہوری طور پر ممبران پارلیمنٹ تھے، اور اگر وہاں ہم جنس پرستی کی شادی کا بل پیش ہوا توانہوں نے پارٹی کی پالیسی کے تحت اس کیلئے ووٹ دیا۔ اسی پیرس میں جنوری 2014ء کو جب پریڈ کے دوران ہم جنسی شادی کے حق میں پٹیشن پر دستخط ہو رہے تھے تو سات ہزار مسلمان ایکٹیوسٹ نے بھی دستخط کیے تھے۔ ایسے مسلمانوں کی موجودگی میں کارٹون بنائے جائیں، توہین رسالت کی جائے، سب روا ہے کیونکہ وہ خود کومسلمان نہیں بلکہ " فرانسیسی طرزِ زندگی" (French Life Style) کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ یہ خاکے دراصل نفرت کی ایک علامت ہے۔ آسیہ مسیح کی تصویر کابہت بڑا بینر پیرس شہر کی میونسپل کمیٹی کی عمارت پر کئی سال تک لہراتارہا اور پیرس کے مسلمان اس کے سامنے معمول کے مطابق گزرتے رہے۔ کسی نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں کیا گیا۔۔ آسیہ مسیح کس بات کی علامت تھی۔۔ توہینِ رسالتؐ کی علامت تھی۔
مسلمانوں کے کسی ملک، شہر یا گاؤں میں فاقہ زدگی کا عالم نہیں تھا۔ اپنے کھیت کھلیان اور کاروبار و مزدوریاں چھوڑ کریہ لوگ یورپ پہنچے۔ اس معاشی ہجرت کی جو قیمت ان لوگوں نے ادا کی ہے اس کی کہانیاں سنانے لگوں تو کئی دنوں تک شامِ غریباں کا سماں طاری رہے۔ ان میں سے ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسے مسجد میں جا کر نماز پڑھنے کی اجازت ہے تو یہ سب سے بڑی رعایت ہے، جو اسے میسر آچکی ہے۔ لیکن اس رعایت کے بدلے جو نسلیں پروان چڑھیں ہیں، انہوں نے آج سے پچاس سال پہلے ہی والدین کو پاگل کر دیا تھا۔ برطانیہ کے شہر بریڈفورڈ میں 1969ء میں ایک نفسیاتی مریضوں کا ہسپتال کھولا گیا جس کا نام تھا "Trans cultural unit of psychiatry"۔ اس ہسپتال میں مسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں کو رکھا جاتا ہے جو دولت کمانے یہاں آئے اور جب انکی اولاد جوان ہو گئی اور وہ مغرب کی اخلاقیات میں رچ بس گئی تو انہیں دیکھ کر ان کا ذہنی توازن بگڑ گیا۔ گھرانوں کے گھرانے اور نسلوں کی نسلیں ایسی برباد ہوئیں کہ ہر کوئی ایک دوسرے سے منہ چھپانے لگا۔ دنیا کے کسی بھی تحقیقی ادارے، خصوصاً "PEW" کی ریسرچ رپورٹیں اٹھا لیں انہیں پڑھ کر آپ کے پاؤں تلے زمین نکل جائیگی۔
ہجرت کرنیوالے مسلمان برباد ہوئے تو ایسے کہ یورپ میں پیدا ہونے والی جسم فروش عورتوں میں ان کی اکثریت ہو گئی اوران میں جو کامیاب ہوئے تو ایسے کہ انہیں اپنا دین، مذہب سب چھوڑنا پڑا۔ مسلمان جن ممالک میں جمہوری طور پر ممبران پارلیمنٹ تھے، اور اگر وہاں ہم جنس پرستی کی شادی کا بل پیش ہوا توانہوں نے پارٹی کی پالیسی کے تحت اس کیلئے ووٹ دیا۔ اسی پیرس میں جنوری 2014ء کو جب پریڈ کے دوران ہم جنسی شادی کے حق میں پٹیشن پر دستخط ہو رہے تھے تو سات ہزار مسلمان ایکٹیوسٹ نے بھی دستخط کیے تھے۔ ایسے مسلمانوں کی موجودگی میں کارٹون بنائے جائیں، توہین رسالت کی جائے، سب روا ہے کیونکہ وہ خود کومسلمان نہیں بلکہ " فرانسیسی طرزِ زندگی" (French Life Style) کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ یہ خاکے دراصل نفرت کی ایک علامت ہے۔ آسیہ مسیح کی تصویر کابہت بڑا بینر پیرس شہر کی میونسپل کمیٹی کی عمارت پر کئی سال تک لہراتارہا اور پیرس کے مسلمان اس کے سامنے معمول کے مطابق گزرتے رہے۔ کسی نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں کیا گیا۔۔ آسیہ مسیح کس بات کی علامت تھی۔۔ توہینِ رسالتؐ کی علامت تھی۔
تحریر #اوریامقبول