Rehnama Dawakhana

Rehnama Dawakhana گر کیفیت نا بھی ھو پھر بھی کیجئے نماز ادا
کیونکہ نماز فرض ہے کیفیت فرض نہیں ہے

17/11/2020
مسلمانوں کے کسی ملک، شہر یا گاؤں میں فاقہ زدگی کا عالم نہیں تھا۔ اپنے کھیت کھلیان اور کاروبار و مزدوریاں چھوڑ کریہ لوگ ...
29/10/2020

مسلمانوں کے کسی ملک، شہر یا گاؤں میں فاقہ زدگی کا عالم نہیں تھا۔ اپنے کھیت کھلیان اور کاروبار و مزدوریاں چھوڑ کریہ لوگ یورپ پہنچے۔ اس معاشی ہجرت کی جو قیمت ان لوگوں نے ادا کی ہے اس کی کہانیاں سنانے لگوں تو کئی دنوں تک شامِ غریباں کا سماں طاری رہے۔ ان میں سے ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسے مسجد میں جا کر نماز پڑھنے کی اجازت ہے تو یہ سب سے بڑی رعایت ہے، جو اسے میسر آچکی ہے۔ لیکن اس رعایت کے بدلے جو نسلیں پروان چڑھیں ہیں، انہوں نے آج سے پچاس سال پہلے ہی والدین کو پاگل کر دیا تھا۔ برطانیہ کے شہر بریڈفورڈ میں 1969ء میں ایک نفسیاتی مریضوں کا ہسپتال کھولا گیا جس کا نام تھا "Trans cultural unit of psychiatry"۔ اس ہسپتال میں مسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں کو رکھا جاتا ہے جو دولت کمانے یہاں آئے اور جب انکی اولاد جوان ہو گئی اور وہ مغرب کی اخلاقیات میں رچ بس گئی تو انہیں دیکھ کر ان کا ذہنی توازن بگڑ گیا۔ گھرانوں کے گھرانے اور نسلوں کی نسلیں ایسی برباد ہوئیں کہ ہر کوئی ایک دوسرے سے منہ چھپانے لگا۔ دنیا کے کسی بھی تحقیقی ادارے، خصوصاً "PEW" کی ریسرچ رپورٹیں اٹھا لیں انہیں پڑھ کر آپ کے پاؤں تلے زمین نکل جائیگی۔

ہجرت کرنیوالے مسلمان برباد ہوئے تو ایسے کہ یورپ میں پیدا ہونے والی جسم فروش عورتوں میں ان کی اکثریت ہو گئی اوران میں جو کامیاب ہوئے تو ایسے کہ انہیں اپنا دین، مذہب سب چھوڑنا پڑا۔ مسلمان جن ممالک میں جمہوری طور پر ممبران پارلیمنٹ تھے، اور اگر وہاں ہم جنس پرستی کی شادی کا بل پیش ہوا توانہوں نے پارٹی کی پالیسی کے تحت اس کیلئے ووٹ دیا۔ اسی پیرس میں جنوری 2014ء کو جب پریڈ کے دوران ہم جنسی شادی کے حق میں پٹیشن پر دستخط ہو رہے تھے تو سات ہزار مسلمان ایکٹیوسٹ نے بھی دستخط کیے تھے۔ ایسے مسلمانوں کی موجودگی میں کارٹون بنائے جائیں، توہین رسالت کی جائے، سب روا ہے کیونکہ وہ خود کومسلمان نہیں بلکہ " فرانسیسی طرزِ زندگی" (French Life Style) کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ یہ خاکے دراصل نفرت کی ایک علامت ہے۔ آسیہ مسیح کی تصویر کابہت بڑا بینر پیرس شہر کی میونسپل کمیٹی کی عمارت پر کئی سال تک لہراتارہا اور پیرس کے مسلمان اس کے سامنے معمول کے مطابق گزرتے رہے۔ کسی نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں کیا گیا۔۔ آسیہ مسیح کس بات کی علامت تھی۔۔ توہینِ رسالتؐ کی علامت تھی۔

مسلمانوں کے کسی ملک، شہر یا گاؤں میں فاقہ زدگی کا عالم نہیں تھا۔ اپنے کھیت کھلیان اور کاروبار و مزدوریاں چھوڑ کریہ لوگ یورپ پہنچے۔ اس معاشی ہجرت کی جو قیمت ان لوگوں نے ادا کی ہے اس کی کہانیاں سنانے لگوں تو کئی دنوں تک شامِ غریباں کا سماں طاری رہے۔ ان میں سے ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسے مسجد میں جا کر نماز پڑھنے کی اجازت ہے تو یہ سب سے بڑی رعایت ہے، جو اسے میسر آچکی ہے۔ لیکن اس رعایت کے بدلے جو نسلیں پروان چڑھیں ہیں، انہوں نے آج سے پچاس سال پہلے ہی والدین کو پاگل کر دیا تھا۔ برطانیہ کے شہر بریڈفورڈ میں 1969ء میں ایک نفسیاتی مریضوں کا ہسپتال کھولا گیا جس کا نام تھا "Trans cultural unit of psychiatry"۔ اس ہسپتال میں مسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں کو رکھا جاتا ہے جو دولت کمانے یہاں آئے اور جب انکی اولاد جوان ہو گئی اور وہ مغرب کی اخلاقیات میں رچ بس گئی تو انہیں دیکھ کر ان کا ذہنی توازن بگڑ گیا۔ گھرانوں کے گھرانے اور نسلوں کی نسلیں ایسی برباد ہوئیں کہ ہر کوئی ایک دوسرے سے منہ چھپانے لگا۔ دنیا کے کسی بھی تحقیقی ادارے، خصوصاً "PEW" کی ریسرچ رپورٹیں اٹھا لیں انہیں پڑھ کر آپ کے پاؤں تلے زمین نکل جائیگی۔

ہجرت کرنیوالے مسلمان برباد ہوئے تو ایسے کہ یورپ میں پیدا ہونے والی جسم فروش عورتوں میں ان کی اکثریت ہو گئی اوران میں جو کامیاب ہوئے تو ایسے کہ انہیں اپنا دین، مذہب سب چھوڑنا پڑا۔ مسلمان جن ممالک میں جمہوری طور پر ممبران پارلیمنٹ تھے، اور اگر وہاں ہم جنس پرستی کی شادی کا بل پیش ہوا توانہوں نے پارٹی کی پالیسی کے تحت اس کیلئے ووٹ دیا۔ اسی پیرس میں جنوری 2014ء کو جب پریڈ کے دوران ہم جنسی شادی کے حق میں پٹیشن پر دستخط ہو رہے تھے تو سات ہزار مسلمان ایکٹیوسٹ نے بھی دستخط کیے تھے۔ ایسے مسلمانوں کی موجودگی میں کارٹون بنائے جائیں، توہین رسالت کی جائے، سب روا ہے کیونکہ وہ خود کومسلمان نہیں بلکہ " فرانسیسی طرزِ زندگی" (French Life Style) کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ یہ خاکے دراصل نفرت کی ایک علامت ہے۔ آسیہ مسیح کی تصویر کابہت بڑا بینر پیرس شہر کی میونسپل کمیٹی کی عمارت پر کئی سال تک لہراتارہا اور پیرس کے مسلمان اس کے سامنے معمول کے مطابق گزرتے رہے۔ کسی نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں کیا گیا۔۔ آسیہ مسیح کس بات کی علامت تھی۔۔ توہینِ رسالتؐ کی علامت تھی۔
تحریر #اوریامقبول

عبداللہ شیشان کا عشق یہ فرانسیسی نوجوان عبداللہ اے کی تصویر ہے جنہوں نے دو دن قبل گستاخ کارٹونسٹ معلم کا سر قلم کیا تھا۔...
29/10/2020

عبداللہ شیشان کا عشق
یہ فرانسیسی نوجوان عبداللہ اے کی تصویر ہے جنہوں نے دو دن قبل گستاخ کارٹونسٹ معلم کا سر قلم کیا تھا۔ 2002 میں روس کے دارالحکومت ماسکو میں پیدا ہونے والا عبد اللہ عام نوجوانوں کو طرح دل میں کئی خواب سجائے زندگی کی منزلیں طے کر رہا تھا۔ خانہ جنگی اور بد امنی سے اسے نفرت تھی، کیونکہ اسی عفریت نے اس کے ماں باپ کو چیچنیا چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ حالات نے عبداللہ کے خاندان کو فرانس کی سرزمین پر پناہ گزین کی حیثیت سے جگہ دلوائی تو اس نے جی لگا کر پڑھنا شروع کردیا۔ وہ خود کو سنوار کر ایک خوشگوار زندگی گزارنا چاہتا تھا۔ پیرس کی گلیوں میں عبد اللہ کی زندگی اس وقت بے چینی کا شکار ہو گئی جب اس کے اسکول ٹیچر سیموئل نے آپ علیہ السلام کے گستاخانہ خاکے بنائے۔ کلاس کے مسلم بچوں نے اس بات کی شکایت کی جس پر والدین نے انتظامیہ کے پاس اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ عبد اللہ کو تب بہت مایوسی ہوئی جب یہ سلسلہ پھر سے شروع ہوگیا۔ عبد اللہ کا اضطراب بڑھتا جا رہا تھا۔
یہ 16 اکتوبر کی تاریخ اور جمعے کا دن تھا۔ کارٹونسٹ معلم نے پھر سے خاکے بنائے اور اس بار طلبہ کو بھی بنانے کا کہا۔ یہ دیکھ کر عبداللہ کے جذبات شدید مجروح ہوئے۔ وہ اندر ٹوٹ گیا۔ اسے اپنی زندگی بے کار لگنے لگی۔ فرانس کی چکاچوند ترقی اور اسبابِ عیش و عشرت میں اس کا دم گھٹنے لگا۔ وہ اپنے عشق کے ہاتھوں بے بس ہوچکا تھا۔ وہ عشق کے "عین" "شین" سے گزر کر "قاف" کو بھی عبور کرچکا تھا۔ عقل سے ماوراء عشق نے عبداللہ کو بے خود سا کردیا۔ اس نے خنجر اٹھا کر کارٹونسٹ کا تعاقب شروع کردیا۔ شام 5 بجے کے قریب موقع پا کر اس نے سیموئل کی گردن دبوچ لی اور آنا فانا اس کا سر قلم کر کے رکھ دیا۔ سیموئل کی گردن زمین پر پڑی تھی اور ادھر عبد اللہ کی روح کو سکون مل گیا تھا۔ وہ جس منزل کی تلاش میں سرگرداں تھا، وہ آخر اسے مل چکی تھی۔ اسی لمحے سائرن کی گونج میں پولیس کی گاڑیاں پہنچ گئیں۔ عبد اللہ مسکرا رہا تھا۔ اس نے ہاتھ میں خنجر اور ایک چھوٹی ہسٹل تھام رکھی تھی۔ 18 سالہ اس خوبرو جوان سے پولیس اس قدر خوفزدہ تھی کہ ایک قدم آگے نہیں بڑھ رہے تھے۔ پھر عشق کی آخری حد بھی پوری ہوگئی۔ عبد اللہ نعرۂ تکبیر بلند کر کے آگے بڑھا اور دوسری طرف سے پولیس مین کی پسٹل سے گولی نکل کر عبد اللہ کی طرف بڑھنا شروع ہوئی۔ پیرس کی سرزمین جہاں جانا کسی بھی انسان کا خواب ہوتا ہے، جہاں کی چمک دھمک دیکھنے والی آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہے، جہاں کی سج دھج سے کوئی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا، اسی پیرس کی زمین میں آج عشق جھوم رہا تھا۔ عشقِ حقیقی نے اس شام دنیاوی لذتوں کو ٹھوکر مار دی۔ عبد اللہ کی تکبیر جوں ہی ختم ہوئی، گولی اس کے سر میں پیوست ہوگئی۔ شہید کی روح موت سے پہلے نکل جاتی ہے، عبداللہ کو موت کی سختی نہیں جھیلنی پڑی، عبداللہ کی روح "فزت و رب الکعبہ" (رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا) کی صدا لگا کر جسم سے کوچ کر گئی۔ فرشتوں کی قطاروں میں عبداللہ مسکراتا ہوا جنت کی جانب چل پڑا جہاں سرکار دو جہاں، رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عاشق کے استقبال کے لئے کھڑے تھے۔ عبداللہ کا پیغام دنیا کے نام تھا کہ جب تک آزادئ اظہار کے نام پر مسلمانوں کی عزیز ترین متاع پر ڈاکے ڈالے جائیں گے، تب تک ہزاروں خوبرو عبداللہ پیرس جرمنی، امریکا و یورپ کی سرزمینوں میں اپنی زندگیاں قربان کرتے رہیں گے۔ غازی علم الدین شہید سے لے کر عبداللہ تک کی تاریخ اس بات کی کھلی گواہی ہے

آتے ہیں وہی جنکو سرکار بلاتے ہیں
27/10/2020

آتے ہیں وہی جنکو سرکار بلاتے ہیں

Address

Sahiwala

Telephone

00923474070035

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Rehnama Dawakhana posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Rehnama Dawakhana:

Share

Category