Adnan Siddiqui

Adnan Siddiqui Adnan Siddiqi is one of the best and qualified Child psychologists (Child/Adolescent Therapist) in Sialkot

Adnan Siddiqi is one of the best and qualified Child psychologists (Child/Adolescent Therapist) in Sialkot. He has done master's in psychology, B.ed (Hon), and holds a diploma in Child/Adolescent therapy. His specialization is in Anxiety, Depression, Oppositional Defiant Disorder (ODD), Conduct Disorder (CD),Learning Disabilities (Dyslexia,Dyscalculia,Dysgraphia, Processing Deficits ,(ADHD)
Attent

ion-Deficit/Hyperactivity Disorder),
, Early Childhood Behavioral, and Emotional Disorders, cognitive & children's habits issues. He has 12 years of experience in the education field & 1 year in this particular field. Moreover, he is serving as the CEO of The Generation School (A School Chain )

04/05/2025

میں تمہارے ساتھ ہوں

کبھی آپ نے ایک مسکراتے چہرے کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا ہے؟
جہاں مسکراہٹ کی چمک ہو، وہاں آنکھوں کی نمی اکثر نظرانداز کر دی جاتی ہے۔
انسانی ذہن ایک سمندر ہے — بظاہر پرسکون، لیکن اندر طوفان برپا ہوتا ہے۔ ہم روز کسی نہ کسی کے چہرے پر "ٹھیک ہوں" کا ماسک دیکھتے ہیں، لیکن ان کے دل میں چیخیں سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔

یہ کتنا عجیب ہے کہ ہم جسمانی زخموں کو فوراً مرہم دیتے ہیں، لیکن جذباتی چوٹوں پر یا تو ہنسی آتی ہے یا خاموشی چھا جاتی ہے۔
"بس زیادہ سوچتے ہو" کہہ کر ہم ایک ذہنی مریض کو مزید تنہا کر دیتے ہیں، حالانکہ اسے سب سے زیادہ کسی کے ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے۔

نفسیاتی مسائل شرمندگی کی بات نہیں، یہ حقیقت ہیں — اتنی ہی سچی جتنی دل کی دھڑکن۔
ایک شخص جسے ہر وقت بےچینی گھیرے رکھتی ہے، وہ اندر ہی اندر خود سے لڑ رہا ہوتا ہے۔
جسے نیند نہیں آتی، وہ شاید رات بھر اپنے اندر کے اندھیروں سے الجھتا ہے۔

اگر کوئی شخص بےوجہ خاموش رہنے لگا ہے، تو اسے صرف "بول کیوں نہیں رہے" نہ کہیں،
بلکہ اس کی خاموشی کو سننے کی کوشش کریں۔
اگر کوئی بار بار اپنی غلطیوں کا ذکر کرتا ہے، تو اسے شرمندہ نہ کریں، بلکہ تسلی دیں کہ وہ قابلِ معافی ہے۔

ذہن وہ قید خانہ ہے جہاں قیدی نظر نہیں آتے، لیکن قید بہت گہری ہوتی ہے۔
آئیے! ہم ایسا ماحول بنائیں جہاں "دماغی صحت" بھی اتنی ہی اہم ہو جتنی "جسمانی صحت"۔
جہاں لوگ اپنے دل کی بات کہنے سے نہ گھبرائیں، جہاں کوئی سننے والا ہو، سمجھنے والا ہو۔

کیونکہ بعض اوقات، کسی کی بچ جانے والی آخری امید…
صرف ایک جملہ ہوتی ہے:
"میں تمہارے ساتھ ہوں۔"

عدنان صدیق
سائیکالوجسٹ/تھراپسٹ
اتوار,4 مئی 2025

"آپ کے بچے موبائل پر کیا دیکھ رہے ہیں؟حقیقت آپ کے اندازوں سے کہیں زیادہ چونکا دینے والی ہو سکتی ہے!"کیا آپ کو لگتا ہے کہ...
20/04/2025

"آپ کے بچے موبائل پر کیا دیکھ رہے ہیں؟
حقیقت آپ کے اندازوں سے کہیں زیادہ چونکا دینے والی ہو سکتی ہے!"

کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے بچے موبائل پر صرف کارٹون یا گیمز کھیل رہے ہیں؟
کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ آن لائن محفوظ ہیں؟
تو ذرا رکیے... کیونکہ یہ صرف آپ کا "اندازہ" ہو سکتا ہے — حقیقت اس سے بہت مختلف اور خطرناک ہو سکتی ہے!

موبائل اسکرین کے پیچھے کی دنیا:

آج کا بچہ موبائل پر کیا دیکھ رہا ہے، یہ جاننا اتنا ہی ضروری ہے جتنا یہ جاننا کہ وہ اسکول میں کیا سیکھ رہا ہے۔ ایک چھوٹی سی اسکرین، جو آپ کو معصوم لگتی ہے، اسی میں:

یوٹیوب کی ریلس میں چھپا ہوا غیر اخلاقی مواد

آن لائن گیمز کی چیٹس میں اجنبیوں سے رابطہ

سوشل میڈیا پر وائرل چیلنجز

ایسا مواد جو اس کے معصوم ذہن کو وقت سے پہلے بالغ بنا سکتا ہے

تو کیا کریں؟ ہاتھ جوڑ کر موبائل چھین لیں؟ نہیں!

بلکہ بنیں ایک ہوشیار اور باشعور والدین!

پانچ چونکا دینے والے حقائق + پانچ قابلِ عمل حل

1. حقیقت: بچے رات کو چھپ کر موبائل استعمال کرتے ہیں۔
حل: موبائل کا "رات کا وقت" مقرر کریں، اور رات کو انٹرنیٹ کنکشن بند کر دیں یا Wi-Fi روٹر بچے کے کمرے سے باہر رکھیں۔

2. حقیقت: بچے گیمز کے دوران دنیا بھر کے اجنبیوں سے چیٹ کرتے ہیں۔
حل: ان گیمز کی Settings میں جا کر چیٹ فیچرز آف کریں۔ بچوں کو سکھائیں کہ "اجنبی آن لائن بھی خطرناک ہو سکتے ہیں۔"

3. حقیقت: یوٹیوب کی auto-suggest ویڈیوز اکثر عمر کے لحاظ سے نامناسب ہوتی ہیں۔
حل: یوٹیوب Kids انسٹال کریں یا Parental Control Apps سے فلٹرز لگائیں۔

4. حقیقت: بچے انٹرنیٹ سے "ایجادات" نہیں، بلکہ "خیالی دنیائیں" سیکھ رہے ہیں۔
حل: انہیں دلچسپ اور سیکھنے والے چینلز یا ایپس سے متعارف کرائیں (مثلاً National Geographic Kids، Scratch Coding، UrduStoryTime وغیرہ)۔

5. حقیقت: بچے موبائل میں اکیلے نہیں ہوتے — ان کے ساتھ سارا انٹرنیٹ ہوتا ہے۔
حل: خود بھی سیکھیں، خود بھی وقت نکالیں — بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کبھی کبھار ان کا ڈیجیٹل سفر شیئر کریں۔ یہ نگرانی نہیں، محبت کی علامت ہے۔

ایک لمحے کے لیے رکیں...

کیا آپ اپنے بچے کے مستقبل کے لیے اتنا بھی وقت نہیں نکال سکتے کہ اس سے پوچھ سکیں:

"بیٹا! آج تم نے موبائل پر کیا دیکھا؟"
یہ سوال صرف ایک سوال نہیں —
یہ اعتماد کی پہلی اینٹ ہے۔

بچے روکنے سے نہیں، سمجھانے سے سیکھتے ہیں۔
پابندیاں عارضی ہوتی ہیں، لیکن اگر آپ انہیں موبائل استعمال کا شعور دے دیں، تو یہی بچہ کل دوسروں کو سکھانے کے قابل ہو سکتا ہے۔

موبائل کا قصور نہیں،
ہماری غفلت ہی اصل خطرہ ہے۔

عدنان صدیق
چائلڈ سائیکالوجسٹ/ایڈولیسنٹ تھراپسٹ
اتوار,20 اپریل 2025

والدین کے نام ایک پیغام: "پرورش کریں، پرکھیں نہیں"اولاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے، مگر اس نعمت کے ...
13/04/2025

والدین کے نام ایک پیغام: "پرورش کریں، پرکھیں نہیں"

اولاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے، مگر اس نعمت کے ساتھ ایک عظیم ذمہ داری بھی جڑی ہوتی ہے — تربیت کی ذمہ داری۔

پیرنٹنگ صرف بچے کو کھلانے، پلانے اور تعلیم دلانے کا نام نہیں، بلکہ یہ اس کے دل، دماغ اور کردار کی آبیاری کا عمل ہے۔ یہ وہ سفر ہے جس میں والدین نہ صرف بچے کی جسمانی ضروریات پوری کرتے ہیں بلکہ اس کی جذباتی، اخلاقی اور روحانی نشوونما کا بھی خیال رکھتے ہیں۔

والدین اکثر انجانے میں بچوں سے بہت زیادہ توقعات باندھ لیتے ہیں۔ امتحان میں نمبر کم آئیں، تو ناراض ہو جاتے ہیں؛ ذرا سی نافرمانی ہو جائے تو سزا دے دیتے ہیں؛ مگر کیا ہم نے کبھی سوچا کہ بچے بھی انسان ہیں، ان کی اپنی سوچ، احساسات اور جذبات ہیں؟ کیا ہم نے کبھی اُن کی خاموشیوں کو سنا، اُن کی آنکھوں کو پڑھا، اور اُن کے دل کو محسوس کیا؟

ایک اچھے والدین وہ نہیں جو صرف سختی سے نظم و ضبط قائم رکھیں، بلکہ وہ ہیں جو محبت سے سکھائیں، صبر سے سنیں، اور اعتماد کے ساتھ تربیت کریں۔ بچوں کو ڈر کر فرمانبردار بنانے کے بجائے، انہیں محبت سے باشعور بنائیں۔

بچہ جس ماحول میں پلتا ہے، وہی اس کی شخصیت کی بنیاد بنتا ہے۔ اگر گھر میں عزت، اعتماد، محبت اور گفتگو کا ماحول ہو گا تو وہ بچہ باہر کی دنیا میں بھی ان خوبیوں کو ساتھ لے کر چلے گا۔

اپنی اولاد کی کامیابی پر خوش ہوں، مگر اُن کی ناکامی پر بھی اُن کے ساتھ کھڑے ہوں۔ اُنہیں بتائیں کہ وہ چاہے جیتیں یا ہاریں، آپ کی محبت میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔

کیونکہ بچے سب سے پہلے والدین کی محبت کے بھوکے ہوتے ہیں، کامیابی کی نہیں۔

عدنان صدیق
چائلڈ سائیکالوجسٹ/ایڈولیسنٹ تھراپسٹ
اتوار ،13 اپریل 2025

پردیس کا مسافررات کا سناٹا تھا، اور وہ اکیلا اپنے چھوٹے سے کمرے کی کھڑکی کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ کھڑکی سے باہر ایک اجنبی ش...
12/01/2025

پردیس کا مسافر

رات کا سناٹا تھا، اور وہ اکیلا اپنے چھوٹے سے کمرے کی کھڑکی کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ کھڑکی سے باہر ایک اجنبی شہر کی روشنیاں جھلملا رہی تھیں، مگر ان روشنیوں میں اسے اپنا کوئی عکس نظر نہیں آتا تھا۔ ہوا میں عجیب سی خنکی تھی، جو اس کے دل کے اندر کے سناٹے کو اور گہرا کر رہی تھی۔ یہ فرحان تھا—پردیس کا ایک مسافر، جو اپنی زمین، اپنے گھر، اور اپنے لوگوں سے بہت دور تھا۔

وہ کھڑکی سے ٹیک لگائے آسمان کو دیکھ رہا تھا، جہاں چاند خاموشی سے اپنی روشنی بکھیر رہا تھا۔ یہ وہی چاند تھا جو اس نے اپنے گاؤں میں بیٹھ کر اپنی ماں کے ساتھ دیکھا تھا۔ ماں کہا کرتی تھی، "بیٹا، جہاں بھی جاؤ، یہ چاند تمہیں میرے قریب رکھے گا۔" مگر آج وہ چاند بھی اجنبی لگ رہا تھا۔ فرحان کی آنکھوں میں ایک درد چھپایا ہوا تھا، وہ درد جو ہجر کی گہرائی سے اٹھتا تھا۔

اچانک اس کے کانوں میں بچوں کی ہنسی گونجنے لگی۔ وہی ہنسی جو اس کے بیٹے اور بیٹی کی تھی۔ "بابا، ہمیں سکول لے چلیں!" بیٹی کی یہ معصوم فرمائش ایک بازگشت کی طرح اس کے دل میں گونج رہی تھی۔ وہ منظر یاد آتے ہی اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ کمرے میں ایک تصویر کی طرف دیکھنے لگا، جو دیوار پر لگی ہوئی تھی۔ تصویر میں اس کے بچے مسکرا رہے تھے، مگر وہ مسکراہٹ فرحان کے دل پر بوجھ بن گئی تھی۔

اس کے ہاتھوں میں ایک کاغذ تھا—اس مہینے کی تنخواہ کا حساب۔ ہر ماہ وہ اپنے خاندان کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے اپنی ضروریات کو نظرانداز کر دیتا تھا۔ بیٹے کی سکول کی فیس، بیٹی کے جوتے، اور ماں کے دواخانے کے خرچ، سب اس کے حصے میں تھے۔ مگر اس سب کے باوجود اس کے دل میں ایک خالی پن تھا۔ وہ سوچنے لگا، "کیا یہ سب قربانیاں کافی ہیں؟ کیا میرا گھر مجھے یاد کرتا ہے، جیسا کہ میں انہیں کرتا ہوں؟"

رات گہری ہو رہی تھی، اور فرحان نے اپنے بستر پر لیٹنے کی کوشش کی۔ مگر نیند اس سے کوسوں دور تھی۔ دیواروں پر ماں کے ہاتھ کی گرمی محسوس ہوتی تھی، باپ کی نصیحتوں کی بازگشت سنائی دیتی تھی، اور بہن بھائیوں کی ہنسی کی گونج دل کو چیر رہی تھی۔ تنہائی اس کے اندر آہستہ آہستہ اپنا زہر گھول رہی تھی۔
فرحان نے کمرے کی لائٹ بند کی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ اس نے دور ایک ستارہ ٹمٹماتے ہوئے دیکھا۔ یہ ستارہ اسے امید کا پیغام دے رہا تھا۔ وہ دل میں سوچنے لگا، "یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ ایک دن میں واپس لوٹوں گا، اپنی زمین پر، اپنے لوگوں کے بیچ۔"

رات کے اس لمحے میں، فرحان کے اندر ایک عزم جاگ اٹھا۔ وہ اپنے دل کو تسلی دینے لگا کہ پردیس کا یہ سفر محض ایک آزمائش ہے، اور ہر آزمائش کا اختتام ہوتا ہے۔ اگلے دن وہ پھر اپنے معمولات میں مصروف ہو جائے گا، مگر آج کی رات، وہ اپنی یادوں کے ساتھ جئے گا۔
یہ صرف ایک فرد کی کہانی نہیں بلکہ ان ہزاروں لوگوں کی کہانی ہے جو اپنے خوابوں کے لیے قربانیاں دیتے ہیں، مگر ان قربانیوں کی قیمت ان کے دل ادا کرتے ہیں۔ پردیس کا دکھ نہ صرف ایک جدائی ہے بلکہ صبر، ہمت، اور قربانی کی ایک نا مٹنے والی داستان ہے۔

عدنان صدیق
اتوار 12 جنوری 2025

کہیں آپ خود اعتمادی کی کمی۔ (Low Self-Esteem) کا شکار تو نہیں ہے؟خود اعتمادی (Self-Esteem) وہ بنیاد ہے جس پر انسان کی شخ...
09/01/2025

کہیں آپ خود اعتمادی کی کمی
۔ (Low Self-Esteem) کا شکار تو نہیں ہے؟

خود اعتمادی (Self-Esteem) وہ بنیاد ہے جس پر انسان کی شخصیت، رویہ، اور کامیابی کا انحصار ہوتا ہے۔ جب یہ بنیاد کمزور ہو جائے تو انسان کی زندگی کے کئی پہلو متاثر ہو سکتے ہیں۔ خود اعتمادی کی کمی یا "لو سیلف اسٹیم" ایک خاموش مسئلہ ہے، جو اندر ہی اندر انسان کو توڑ کر رکھ دیتا ہے۔اور یہ اس کی کامیابیوں کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔

خود اعتمادی کی کمی کی وجوہات

بچپن کے تلخ تجربات
بچپن میں والدین، اساتذہ یا قریبی افراد کی جانب سے مسلسل تنقید، توجہ کی کمی یا سختی انسان کے اندر یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ وہ ناکافی ہے۔

سماجی موازنہ
آج کے دور میں، خاص طور پر سوشل میڈیا پر دوسروں کی زندگیوں کو دیکھ کر اپنی زندگی کو کمتر سمجھنا عام ہو چکا ہے۔ یہ مسلسل موازنہ خود اعتمادی کو کمزور کر دیتا ہے۔

ناکامیاں اور مسترد ہونا
بار بار کی ناکامی یا دوسروں کے رویے میں عدم قبولیت کا سامنا انسان کو اپنے بارے میں منفی خیالات کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
غیر صحت مند تعلقات
ایسے رشتے جن میں عزت اور محبت کی کمی ہو، خود اعتمادی کو زوال پذیر کر سکتے ہیں۔

خود اعتمادی کی کمی کی علامات

اپنی صلاحیتوں پر بھروسا نہ ہونا

ہر معاملے میں دوسروں کی منظوری کی ضرورت

کامیابیوں کے باوجود خود کو ناکام سمجھنا

نئے مواقع یا چیلنجز سے خوف کھانا

منفی سوچوں کا غالب رہنا

اثرات
خود اعتمادی کی کمی کا اثر انسان کی ذاتی، سماجی اور پیشہ ورانہ زندگی پر پڑتا ہے:
ذاتی زندگی میں اثرات
ایسے لوگ اکثر خود کو دوسروں سے الگ تھلگ کر لیتے ہیں، اپنی رائے دینے سے کتراتے ہیں اور تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

پیشہ ورانہ زندگی میں اثرات
خود اعتمادی کی کمی کے باعث افراد بہتر مواقع سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے اور اپنے کام میں غیر یقینی کا شکار رہتے ہیں۔

ذہنی صحت پر اثرات
یہ کمی انسان کو ڈپریشن، بےچینی اور ذہنی دباؤ کی طرف لے جا سکتی ہے، جس سے زندگی مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے۔

خود اعتمادی بہتر کرنے کے عملی طریقے

اپنی خوبیوں کو پہچانیں
اپنے اندر چھپی خوبیاں اور صلاحیتوں کو دریافت کریں اور ان پر فخر کریں۔

منفی خیالات کا مقابلہ کریں
جب بھی منفی سوچیں آئیں، ان کا تجزیہ کریں اور مثبت خیالات کو ان کی جگہ دیں۔

چھوٹے اور قابل حصول اہداف بنائیں
زندگی میں چھوٹے چھوٹے اہداف طے کریں اور ان کی کامیابی کا جشن منائیں۔

مثبت ماحول میں رہیں
ایسے لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں جو آپ کی حوصلہ افزائی کریں اور آپ کی خوبیوں کو سراہیں۔

ماہرین سے رجوع کریں
کسی ماہرِ نفسیات سے مدد لینا مفید ہو سکتا ہے۔ وہ آپ کو ایسی تکنیکس بتا سکتے ہیں جو آپ کی خود اعتمادی میں اضافہ کریں۔

خود اعتمادی کی کمی ایک قابلِ حل مسئلہ ہے، لیکن اس کے لیے مستقل محنت، مثبت رویہ اور صحیح رہنمائی ضروری ہے۔ یاد رکھیں، آپ کی اہمیت دوسروں کی رائے پر نہیں بلکہ آپ کی اپنی سوچ پر منحصر ہے۔ اپنی ذات کو سمجھیں، اپنی طاقت کو پہچانیں اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔

زندگی آپ کی اپنی ہے، اور اس کی قدر آپ ہی بہتر طور پر جان سکتے ہیں۔

عدنان صدیق
سائیکالوجیسٹ/تھراپسٹ

دماغ کی گمشدہ دنیا کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کے دماغ میں ایک ایسی دنیا موجود ہے جو آپ کی زندگی کے ہر فیصلے، ہر عادت، اور ہر...
22/11/2024

دماغ کی گمشدہ دنیا

کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کے دماغ میں ایک ایسی دنیا موجود ہے جو آپ کی زندگی کے ہر فیصلے، ہر عادت، اور ہر جذبے کو کنٹرول کرتی ہے، لیکن آپ کو اس کا شعور تک نہیں؟ جی ہاں، یہ آپ کا "لاشعور" ہے، ایک ایسا خاموش مسافر جو آپ کی زندگی کے ہر لمحے میں آپ کے ساتھ ہے، لیکن ہمیشہ پردے کے پیچھے۔ لاشعور وہ طاقتور حقیقت ہے جو ہمارے شعور کی حدود سے ماورا ہے، جہاں خوابوں کی دنیا بستی ہے، جہاں تخلیقی خیالات جنم لیتے ہیں، اور جہاں ہمارے خوف اور خواہشات اپنی شکلیں بدلتے ہیں۔

تصور کریں، آپ ایک بند کمرے میں ہیں، لیکن کمرہ جتنا دکھائی دیتا ہے اس سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔ آپ کا لاشعور اس کمرے کے چھپے ہوئے دروازے کھولتا ہے، جہاں ایک نئی دنیا آپ کی منتظر ہوتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہماری زندگی کے 95 فیصد فیصلے لاشعور کی سطح پر کیے جاتے ہیں، چاہے وہ کسی شخص سے محبت ہو، کسی کام کی عادت ہو، یا کسی گانے کی دھن جو بار بار ذہن میں گونجتی ہے۔ لیکن یہ سب کیسے ہوتا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس نے صدیوں سے ماہرین نفسیات کو حیرت میں مبتلا رکھا ہے۔

لاشعور کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ آپ کے تجربات کو محفوظ رکھتا ہے اور آپ کے رویوں کو بنا کسی شعوری کوشش کے قابو میں رکھتا ہے۔ اگر آپ بچپن میں کسی ناکامی کا سامنا کرتے ہیں تو یہ خوف آپ کے لاشعور میں نقش ہو جاتا ہے اور آپ کے ہر فیصلے کو متاثر کرتا ہے۔ لیکن اسی لاشعور میں وہ طاقت بھی ہے جو آپ کی زندگی کو مکمل طور پر بدل سکتی ہے۔ یہ خوابوں کی زبان میں بات کرتا ہے، جہاں آپ کے دماغ کے گہرے گوشے آپ کو ایسے پیغامات دیتے ہیں جنہیں سمجھ کر آپ اپنی زندگی کو نئے راستے پر ڈال سکتے ہیں۔

لاشعور کے بارے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نہ صرف ہماری یادداشتوں اور عادات کا محافظ ہے بلکہ یہ ہماری تخلیقی صلاحیتوں کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے۔ دنیا کے بڑے سائنسدان اور فنکار، جیسے نیوٹن اور آئن اسٹائن، نے اپنی بڑی دریافتوں کا سہرا لاشعور کے سر باندھا ہے۔ آئن اسٹائن کے مطابق، "لاشعور کا علم شعوری سوچ سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔"

آپ اپنے لاشعور کو کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ یہ ایک حیرت انگیز عمل ہے۔ مراقبہ کریں، اپنے ذہن کو پرسکون کریں، اور اپنے اندرونی خیالات کو سنیں۔ اپنے خوابوں پر غور کریں، کیونکہ یہ آپ کے لاشعور کا آئینہ ہیں۔ مثبت خیالات کے ذریعے آپ اپنے لاشعور کو ری پروگرام کر سکتے ہیں اور اپنی زندگی کو ایک نئی سمت دے سکتے ہیں۔

لاشعور ایک ایسی دنیا ہے جو ہماری عام زندگی کے پردے کے پیچھے چھپی ہوئی ہے، لیکن جب آپ اس کی کھوج شروع کرتے ہیں، تو آپ کو اپنی ذات کی گہرائیوں میں وہ خزانے ملتے ہیں جن کا آپ نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ تو کیا آپ تیار ہیں اس گمشدہ دنیا کی کھوج کے لیے؟ یاد رکھیں، جہاں لاشعور ختم ہوتا ہے، وہاں امکانات کی ایک نئی دنیا شروع ہوتی ہے۔
عدنان صدیق
سائیکالوجیسٹ/تھراپسٹ

بچوں کا عالمی دن اور والدین کے لیے رہنمائی کا ایک موقع20 نومبر کو دنیا بھر میں بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جو اقوام ...
20/11/2024

بچوں کا عالمی دن اور والدین کے لیے رہنمائی کا ایک موقع

20 نومبر کو دنیا بھر میں بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق بچوں کے حقوق، ان کی حفاظت، اور خوشحال مستقبل کے عہد کی تجدید کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن والدین، اساتذہ، اور معاشرے کے ہر فرد کے لیے ایک یاد دہانی ہے کہ بچے صرف ہماری زندگی کا حصہ نہیں بلکہ ہماری ترجیح اور مستقبل ہیں۔

بطور والدین، ہمیں اس دن کو ایک موقع سمجھنا چاہیے کہ ہم اپنے رویوں، طریقوں، اور اصولوں کا جائزہ لیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے بچوں کے لیے ایک محفوظ، محبت بھرے اور مثبت ماحول فراہم کرنے کا عہد کریں، تاکہ وہ نہ صرف ذہنی طور پر مضبوط ہوں بلکہ معاشرے کے لیے ایک بہترین فرد کے طور پر پروان چڑھ سکیں۔

بچوں کی نفسیات اور والدین کا کردار

بچے کا دماغ ایک صاف تختی کی مانند ہوتا ہے، جس پر ہر لفظ، ہر عمل اور ہر رویہ نقش ہوجاتا ہے۔ والدین کا ہر عمل بچے کی شخصیت اور سوچ کو بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ بچوں کی نفسیات کو سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کی عمر، جذباتی سطح اور ذہنی استعداد کو مدنظر رکھ کر ان سے بات کریں، ان کے مسائل کو سنیں، اور ان کی ضروریات کو پورا کریں۔

بطور چائلڈ سائکالوجیسٹ کے اور ایک سکول پرنسپل بچوں کے قریب رہتے ہوئے ، میں دیکھتا ہوں کہ ہر بچہ اپنی انفرادیت میں ایک دنیا رکھتا ہے۔ ان کے ذہن، جذبات اور رویے ان کے ماحول، تجربات اور تعلقات سے گہرے طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ بچوں کی نفسیات کو سمجھنا نہ صرف ان کی کامیابی کا راز ہے بلکہ ان کی معصومیت اور جذبات کی حفاظت بھی ہماری ذمہ داری ہے۔

والدین کی عمومی غلطیاں

بسا اوقات والدین غیر ارادی طور پر وہ غلطیاں کرتے ہیں جو بچوں کی شخصیت پر منفی اثر ڈالتی ہیں:

زیادہ سختی: اکثر والدین بچوں کو سختی سے ڈرا کر یا دباؤ ڈال کر اپنی بات منوانا چاہتے ہیں، جو بچوں کے اعتماد کو نقصان پہنچاتا ہے۔

عدم توجہ: بچوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظرانداز کرنا انہیں احساس کمتری یا لاپرواہی کی جانب لے جاتا ہے۔

تقابلی رویہ: ایک بچے کا دوسرے سے موازنہ کرنا ان کی خود اعتمادی کو کمزور کر دیتا ہے اور حسد یا مایوسی پیدا کرتا ہے۔

بچوں کی بہتر تربیت کے لیے نکات

1. محبت کا اظہار کریں: بچے محبت کے بھوکے ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ وقت گزاریں، ان سے محبت کا اظہار کریں اور انہیں یہ احساس دلائیں کہ وہ آپ کی زندگی کا سب سے قیمتی حصہ ہیں۔

2. مثبت گفتگو کریں: بچے آپ کی زبان اور لہجے کو اپناتے ہیں۔ ہمیشہ ان سے نرم اور مثبت انداز میں بات کریں۔

3. تعلیم کے ساتھ تربیت پر توجہ دیں: صرف تعلیمی کارکردگی پر زور دینے کے بجائے ان کی اخلاقیات، عادات، اور دوسروں کے ساتھ رویے پر بھی توجہ دیں۔

4. ان کی بات سنیں: بچوں کو اپنی بات کہنے کا موقع دیں۔ ان کے مسائل کو سمجھیں اور ان کے جذبات کی قدر کریں۔

5. ٹیکنالوجی کا متوازن استعمال: بچوں کے اسکرین ٹائم پر نظر رکھیں اور انہیں جسمانی سرگرمیوں کی طرف راغب کریں۔

بچوں کی خوشیوں کا خیال رکھیں:

بچے اپنی دنیا میں چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے خوش ہوتے ہیں۔ ان کی کامیابیوں کو سراہیے، ان کے ساتھ کھیلیں، اور ان کے خوابوں کی قدر کریں۔ یاد رکھیں کہ آپ کی تعریف ان کی زندگی کے سب سے قیمتی لمحات میں سے ایک ہوگی۔

مشکل حالات میں بچوں کا ساتھ

بعض اوقات بچے زندگی میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، جیسے ناکامی، دوستوں کے جھگڑے، یا کسی چیز سے ڈر۔ ایسے مواقع پر ان کی رہنمائی کریں، ان کا حوصلہ بڑھائیں، اور انہیں یہ احساس دلائیں کہ ہر مشکل کے بعد آسانی آتی ہے۔

بچوں کا عالمی دن ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ بچوں کی خوشیاں، تحفظ اور تعلیم ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ایک بہتر انسان بنیں تو ہمیں انہیں محبت، اعتماد اور ایک مضبوط بنیاد دینی ہوگی۔ والدین کے طور پر ہمارا کردار بچوں کے مستقبل کی تعمیر میں ایک ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔ آج کا دن اس بات کا عہد کرنے کا موقع ہے کہ ہم اپنے بچوں کے لیے ایسا ماحول فراہم کریں گے جو ان کے دلوں کو سکون اور ذہنوں کو روشن کرے۔

"بچے آپ کے ہاتھ میں مٹی کی مانند ہیں، انہیں جس شکل میں ڈھالیں گے، وہی ان کی شخصیت بنے گی۔"

عدنان صدیق
چائلڈ سائیکالوجیسٹ/ایڈولیسنٹ تھراپسٹ

10/11/2024

سکون دل♥

زندگی ایک خوبصورت مگر پراسرار سفر ہے۔ اس سفر میں ہم سب سکون کی تلاش میں بھٹکتے رہتے ہیں، جیسے کہ کسی ویرانے میں ایک پیاسے کو پانی کی تلاش ہو۔ دل کی یہ پیاس کوئی آسانی سے نہیں بجھا سکتا، مگر ایک چھوٹا سا راز ہے جو ہمیں اس بے چینی سے آزاد کر سکتا ہے: اپنے آپ سے محبت اور اپنی روح کے سفر کو سمجھنا۔

ہماری روزمرہ کی زندگی میں ہر شخص، ہر واقعہ، اور ہر چیز ہمیں متاثر کرتی ہے۔ کہیں کامیابی کی خواہش ہمیں بے چین کر دیتی ہے تو کہیں ناکامی کا خوف ہمارے دل کو بوجھل کر دیتا ہے۔ مگر کبھی سوچا ہے کہ یہ بے چینی کیوں ہے؟ یہ اس لیے ہے کہ ہم نے اپنی خوشی، سکون اور دل کا چین دوسروں کی رائے اور حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ہمیں یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ سکون کہیں باہر نہیں بلکہ ہمارے اپنے دل کے اندر چھپا ہے، ہمیں بس اسے ڈھونڈنا ہے۔

خود سے محبت کا سفر ایک خودشناسی کا سفر ہے۔ اس کا آغاز اس لمحے سے ہوتا ہے جب ہم اپنے آپ کو غیر مشروط طور پر قبول کرتے ہیں، اپنی خوبصورتی اور خامیوں کو دل سے تسلیم کرتے ہیں۔ جب ہم اپنی چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کو دل سے سراہتے ہیں اور اپنی ناکامیوں کو سبق سمجھ کر گلے لگاتے ہیں تو ہمارا دل سکون محسوس کرتا ہے۔ دل کا سکون وہی پا سکتا ہے جو خود کو اپنی بہترین کمپنی مان لے۔

کبھی کبھار خاموشی سے وقت گزارنا، قدرت کی خوبصورتی کو محسوس کرنا، چڑیوں کی چہچہاہٹ سننا، آسمان کی وسعتوں کو دیکھنا، اور اللہ کی محبت میں چند پل بسر کرنا ہمیں ایک خاص طرح کی راحت دیتا ہے۔ یہ وہ لمحات ہیں جب دل اپنی تمام بے چینی اور درد کو بھول کر صرف خدا کی محبت میں ڈوب جاتا ہے، اور ہم محسوس کرتے ہیں کہ دنیا کی ہر چیز ہماری روح کو چھو رہی ہے۔

اپنے دل کو وقت دیں، اپنی روح کو سکون کے ان لمحات میں سانس لینے دیں۔ یاد رکھیں، حقیقی سکون کسی بڑے مقام یا بڑی کامیابی میں نہیں، بلکہ چھوٹے چھوٹے لمحوں میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ جب ہم اپنے دل کو قبول کرتے ہیں، اپنی ذات سے محبت کرتے ہیں، اور اللہ کی رحمت پر بھروسہ رکھتے ہیں تو ہماری زندگی میں سکون کا ایسا سمندر بستا ہے جس کی گہرائی میں اترنے کا لطف بیان سے باہر ہے۔

زندگی کے اس سفر کو انمول بنائیں۔ اپنی ذات کو اہمیت دیں، اپنے دل کو پیار سے سنواریں، اور سکون کے ان لمحوں کو سمیٹ کر اپنے دل کے اندر اتاریں۔ کیونکہ دل کا سکون ہی اصل خوشی ہے، اور یہ خوشی صرف اسی کو نصیب ہوتی ہے جو خود سے محبت کرنا سیکھ لیتا ہے۔
عدنان صدیق
اتوار، 10 نومبر 2024

کیا آپ بچہ بات بات پر موڈ خراب کر لیتا ہے؟آئیے جانتے ہیں بچے ایسا کیوں کرتے ہیں اور اس کا علاج کیا ہےاکثر والدین شکایت ک...
23/10/2024

کیا آپ بچہ بات بات پر موڈ خراب کر لیتا ہے؟
آئیے جانتے ہیں بچے ایسا کیوں کرتے ہیں اور اس کا علاج کیا ہے

اکثر والدین شکایت کرتے ہیں کہ ان کا بچہ ذرا سی بات پر موڈ خراب کر لیتا ہے، اور اس کا رویہ غصے، چڑچڑے پن یا خاموشی میں بدل جاتا ہے۔ بچوں کے اس رویے کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ والدین نہ صرف اس سے مؤثر طریقے سے نمٹ سکیں بلکہ بچے کی جذباتی نشوونما کو بھی بہتر بنائیں۔ آئیے تفصیل سے جانتے ہیں کہ بچوں کا خراب موڈ کیا ہوتا ہے، وہ ایسا کیوں کرتے ہیں، اور اس کی اقسام کیا ہیں۔

خراب موڈ کیا ہے؟

بچے کے خراب موڈ سے مراد وہ جذباتی کیفیت یا رویہ ہے جس میں بچہ ناراض، چڑچڑا، اداس یا بے چین محسوس کرتا ہے اور اس کا رویہ عام دنوں کے برعکس ہو جاتا ہے۔ بچے اپنے جذبات کو مکمل طور پر بیان کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اس لیے وہ چھوٹی باتوں پر موڈ خراب کرکے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ رویہ اکثر والدین کے لیے پریشان کن ہوتا ہے لیکن درحقیقت یہ ایک پیغام ہوتا ہے کہ بچہ کسی اندرونی دباؤ یا ضرورت کا شکار ہے۔

بچے موڈ کیوں خراب کرتے ہیں؟

بچے کے موڈ میں تبدیلی کے پیچھے کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ان وجوہات کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ والدین مناسب طریقے سے ردعمل دے سکیں۔

💠. جسمانی وجوہات

بھوک: جب بچہ بھوکا ہوتا ہے تو وہ چڑچڑا ہو سکتا ہے۔

نیند کی کمی: نیند پوری نہ ہونے سے بچے کا مزاج خراب ہو جاتا ہے۔

تھکن یا بیماری: جسمانی تھکن یا کسی معمولی بیماری کی وجہ سے بچے کا رویہ تبدیل ہو سکتا ہے۔

💠. جذباتی وجوہات

توجہ کی کمی: والدین یا دوسروں کی توجہ نہ ملنے پر بچہ موڈ خراب کر کے توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

مایوسی یا ناکامی: جب بچہ کسی کام میں کامیاب نہ ہو، تو وہ اداس یا چڑچڑا ہو جاتا ہے۔

دوستی یا تعلقات میں مسائل: دوستوں یا بہن بھائیوں کے ساتھ جھگڑا بھی خراب موڈ کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔

💠. ماحولیاتی وجوہات

غیر متوقع تبدیلیاں: روزمرہ کی روٹین میں تبدیلی جیسے اسکول جانا یا گھر کا ماحول تبدیل ہونا بچے کے موڈ پر اثر ڈال سکتا ہے۔

شور شرابہ یا دباؤ: بہت زیادہ شور یا دباؤ والے ماحول میں بچے کا رویہ متاثر ہو سکتا ہے۔

💠. نشوونما کے مراحل

بچے مختلف عمر کے مراحل میں جذباتی تبدیلیوں سے گزرتے ہیں۔ مثلاً چھوٹے بچوں میں ضد اور چڑچڑاپن عام ہے، جبکہ بڑے بچے تنہائی اور خاموشی کا سہارا لے سکتے ہیں۔

خراب موڈ کی اقسام

بچوں کا خراب موڈ مختلف طریقوں سے ظاہر ہو سکتا ہے، جنہیں بہتر سمجھنے کے لیے چند اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

🔻. غصہ اور چڑچڑاپن

بچہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہو جاتا ہے یا چیخنے لگتا ہے۔

کھلونے توڑنا یا دوسروں سے بدتمیزی اس کا اظہار ہو سکتا ہے۔

🔻. ضد اور رونا دھونا

بچہ اپنی بات نہ منوانے پر ضد کرتا ہے اور رونے لگتا ہے۔

والدین کے سمجھانے پر بھی وہ بات ماننے سے انکار کرتا ہے۔

🔻. خاموشی اور لاتعلقی

بعض بچے خراب موڈ میں خاموش ہو جاتے ہیں اور دوسروں سے بات چیت کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

وہ کسی کھیل یا سرگرمی میں دلچسپی نہیں لیتے۔

🔻. پریشانی اور خوف

بچہ بلاوجہ پریشان یا خوفزدہ دکھائی دیتا ہے۔

نیند میں ڈراؤنے خواب یا ہر چیز سے شکایت کرنا بھی اس کیفیت کا حصہ ہو سکتا ہے۔

والدین کے لیے راہنما اصول

بچوں کے خراب موڈ کو کنٹرول کرنے کے لیے والدین کو حکمت اور صبر سے کام لینا ہوگا۔ چند اہم راہنما اصول یہ ہیں:

1. روٹین اور نظم و ضبط قائم کریں

بچوں کے لیے روزمرہ کی روٹین طے کریں تاکہ وہ محفوظ محسوس کریں اور غیر ضروری دباؤ سے بچ سکیں۔

2. جذباتی تعلیم دیں

بچوں کو ان کے جذبات سمجھنے اور مناسب طریقے سے بیان کرنے کا موقع دیں۔ ان سے بات کریں: "آپ کو غصہ کیوں آیا؟" یا "آپ اداس کیوں ہیں؟"

3. مثبت رویے کی حوصلہ افزائی کریں

جب بچہ مثبت رویہ اختیار کرے، تو اس کی تعریف کریں تاکہ وہ مزید بہتر رویے کی کوشش کرے۔

4. بچوں کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھیں

بھوکا یا تھکا ہوا بچہ زیادہ چڑچڑا ہو سکتا ہے، اس لیے اس کی بنیادی ضروریات پوری کریں۔

5. پرسکون ردعمل دیں

بچے کے خراب موڈ پر سختی یا ڈانٹ کے بجائے صبر سے بات کریں اور اس کا مسئلہ سمجھنے کی کوشش کریں۔

6. جسمانی سرگرمیوں میں مصروف رکھیں

کھیل اور ورزش بچوں کے موڈ کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

7. پیشہ ورانہ مدد حاصل کریں

اگر بچے کا خراب موڈ مسلسل برقرار رہے اور عام طریقوں سے بہتر نہ ہو، تو کسی ماہرِ نفسیات سے مشورہ کریں۔

بچوں کا موڈ خراب ہونا ایک عام رویہ ہے، لیکن والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسے سمجھنے اور مناسب طریقے سے سنبھالنے کی کوشش کریں۔ بچوں کے خراب موڈ کے پیچھے اکثر جذباتی، جسمانی یا ماحولیاتی عوامل ہوتے ہیں، جنہیں سمجھ کر والدین نہ صرف بچوں کے رویے کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ ان کی جذباتی نشوونما میں بھی مدد کر سکتے ہیں۔ محبت، صبر اور مستقل مزاجی کے ساتھ بچوں کے موڈ کو بہتر بنانا ممکن ہے۔

عدنان صدیق
چائیلڈ سائیکالوجیسٹ/ ایڈولیسنٹ تھراپسٹ

"تمہاری جیت کا سفر ابھی باقی ہے"رات کا دوسرا پہر تھا۔ خدیجہ کی آنکھوں سے نیند جیسے کوسوں دور تھی۔ کمرے میں جلتی مدھم روش...
21/10/2024

"تمہاری جیت کا سفر ابھی باقی ہے"

رات کا دوسرا پہر تھا۔ خدیجہ کی آنکھوں سے نیند جیسے کوسوں دور تھی۔ کمرے میں جلتی مدھم روشنی اور خاموشی میں صرف دیوار پر ٹِک ٹِک کرتی گھڑی کی آواز تھی۔ وہ ہمیشہ کی طرح بستر پر لیٹی چھت کو گھور رہی تھی۔ اس کے ذہن کے اندر خیالات کا سمندر طوفان کی طرح اٹھ رہا تھا، جیسے کوئی آسیب ہو جو اسے سکون سے جینے نہیں دیتا۔ خدیجہ کو یقین تھا کہ یہ "بس وہم" نہیں تھا؛ یہ اذیت اس کی زندگی کا حصہ بن چکی تھی۔

سب کچھ دو سال پہلے شروع ہوا تھا۔ خدیجہ ہمیشہ سے ایک حساس مزاج لڑکی تھی لیکن جب اس کے والد اچانک حادثے میں وفات پا گئے، تو اس کی دنیا بکھر گئی۔ ان کی موت نے اس کی زندگی سے نہ صرف ایک مضبوط سہارا چھین لیا بلکہ اس کی ذہنی حالت کو بھی متزلزل کر دیا۔ وہ بار بار اپنے والد کی آخری جھلک کو یاد کرتی اور ان کے جانے کا صدمہ دل کے اندر ایک زخم کی طرح چبھتا رہتا۔

ابتدا میں لوگوں نے اس کے غم کو سمجھنے کی کوشش کی، لیکن وقت کے ساتھ ان کا خیال تھا کہ وہ خود کو سنبھال لے گی۔ مگر خدیجہ کی حالت بگڑتی جا رہی تھی۔
راتیں بے سکونی میں گزرتیں، دل ہر وقت ڈوبا رہتا، اور تنہائی کا خوف اس کے وجود پر حاوی ہوتا جا رہا تھا۔

کسی نے خدیجہ کو بتایا کہ وہ شاید "ڈپریشن" میں مبتلا ہے۔ مگر معاشرے کے لیے ڈپریشن کوئی "بیماری" نہیں، بلکہ ایک "کمزوری" سمجھی جاتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ خدیجہ نے کبھی اپنی تکلیف کا کھل کر ذکر نہیں کیا۔

اس کا دن اسی ذہنی الجھن میں گزرتا کہ وہ کیوں خوش نہیں رہ سکتی؟ کیوں ہر خوشی اس کے لیے بے معنی ہو چکی ہے؟
دوستوں سے میل جول ختم ہو گیا، وہ یونیورسٹی کی کلاسز میں خاموش بیٹھی رہتی۔ یہاں تک کہ بات چیت کا دل بھی نہیں کرتا تھا۔ لوگ اس کی خاموشی کو بدتمیزی سمجھنے لگے، مگر وہ خود اپنے اندر کی چیخوں سے اتنی لڑ چکی تھی کہ دوسروں کے خیالات کی پروا کرنا چھوڑ چکی تھی۔

ایک دن کلاس کے دوران اچانک خدیجہ کو سانس لینے میں دقت ہونے لگی۔ اسے یوں لگا جیسے وہ کمرے میں قید ہو چکی ہے اور اس کا دم گھٹ رہا ہو۔ وہ گھبراہٹ میں رونے لگی اور سب کے سامنے بے ہوش ہو گئی۔
یہ اس کی زندگی کا پہلا "پینک اٹیک" تھا۔

ڈاکٹرز نے بتایا کہ وہ شدید "اینزائٹی ڈس آرڈر" کا شکار ہے اور اسے فوری علاج کی ضرورت ہے۔ مگر خدیجہ کا خاندان نفسیاتی مسائل کو سنجیدہ نہیں لیتا تھا۔ "یہ سب تمہارے دماغ کا وہم ہے" — یہی جواب اسے بار بار سننے کو ملتا۔

کئی مہینوں تک وہ ایک سرد کمرے میں قید محسوس کرتی رہی۔ مگر ایک دن، اس کی خالہ اسے ملنے آئی ۔خالہ نے جب اسی یہ حالت دیکھی اس سے رہا نا گیا وہ خدیجہ کو چند دنوں کے لیے اپنے پاس لے آئی بس یہی سے خدیجہ کی زندگی نئی شروعات ہوتی ہے۔ اس نے خدیجہ کی تکلیف کو سمجھا، اسے سنا اور کہا: "تمہیں مدد کی ضرورت ہے، اور اس میں کوئی شرم کی بات نہیں۔"

یہ الفاظ خدیجہ کے لیے زندگی کی پہلی امید بنے۔ خالہ اسے ہمارے پاس لیکر آئی وہ آہستہ آہستہ تھیراپی کے سیشنز لینے لگی ڈاکٹرز کی ہدایات پر ادویات کا استعمال شروع کیا۔ یہ سفر آسان نہیں تھا؛ کئی بار اس کا دل ہار ماننے کو تیار ہوتا، مگر اب وہ جان چکی تھی کہ زندگی کی جنگ لڑنا ضروری ہے۔

وہ ابھی مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوئی تھی، لیکن اب وہ جان چکی تھی کہ زندگی صرف سکون کے لمحات کا نام نہیں، بلکہ ہر اندھیرے سے لڑنے کا حوصلہ بھی ہے۔ وہ یہ سمجھ چکی تھی کہ ٹھیک ہونے کا مطلب صرف غم کا خاتمہ نہیں، بلکہ اس کے ساتھ جینا سیکھنا ہے۔ ہر دن ایک نئی آزمائش تھا، مگر ہر چھوٹا قدم اس کی جیت بن چکا تھا۔ اب وہ جانتی تھی کہ گرنا شکست نہیں، بلکہ گرنے کے بعد اٹھنا اصل بہادری ہے۔

خدیجہ کی کہانی اُن سب کے لیے ایک پیغام ہے جو ذہنی اذیتوں کے شکنجے میں قید ہیں—کہ آپ کا درد بے معنی نہیں اور آپ کی جنگ اہم ہے۔ زندگی کبھی مکمل طور پر آسان نہیں ہوتی، لیکن اندھیروں کے بعد بھی صبح ہوتی ہے۔
شاید آج نہ سہی، مگر کل ضرور وہ دن آئے گا جب دل پر چھائے بادل چھٹ جائیں گے اور سانس لینا آسان محسوس ہوگا۔ زندگی کا ہر دن ایک موقع ہے—موقع اپنے زخموں کو قبول کرکے آگے بڑھنے کا، موقع اپنے آپ کو معاف کرنے کا، اور موقع نئے خواب دیکھنے کا۔

خدیجہ کی آنکھوں میں اب بھی کبھی آنسو آتے ہیں، لیکن وہ جانتی ہے کہ یہ آنسو کمزوری نہیں، بلکہ اس کے حوصلے کی نشانی ہیں۔ وہ اب اپنی کہانی کا ایک نیا باب لکھ رہی ہے—ایک ایسا باب جس میں شکست بھی ہے اور جیت بھی، مگر سب سے بڑھ کر، امید کا چراغ روشن ہے۔

"تم گر سکتے ہو، لیکن ہارنا تمہارے اختیار میں نہیں۔"

عدنان صدیق
سائیکالوجیسٹ/تھراپسٹ

ہمت، لگن، امید اور کامیابی کا سفر ایک خواب سے حقیقت تکزندگی کا سفر ایک طویل کہانی کی مانند ہے، جہاں ہر موڑ پر چیلنجز اور...
20/10/2024

ہمت، لگن، امید اور کامیابی کا سفر
ایک خواب سے حقیقت تک

زندگی کا سفر ایک طویل کہانی کی مانند ہے، جہاں ہر موڑ پر چیلنجز اور آزمائشیں ہمارا انتظار کرتی ہیں۔ لیکن یہی سفر انمول بنتا ہے جب ہم ہمت، لگن اور مستقل مزاجی کا دامن تھامے رہتے ہیں۔ کامیابی ان لوگوں کا مقدر بنتی ہے جو ٹھوکریں کھا کر گرنے کے باوجود دوبارہ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، جو اندھیروں میں بھی امید کا چراغ جلانا نہیں بھولتے، اور جو منزل کی تلاش میں کبھی تھکتے نہیں۔

یہ دنیا ان کے قدموں میں جھکتی ہے جو یہ جان لیتے ہیں کہ شکست، کامیابی کا پہلا زینہ ہے۔ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے راہوں میں آنے والے کانٹوں سے گھبراتے نہیں بلکہ ان کانٹوں کو ہی پلکوں پر سجانا سیکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ راستے میں آنے والی مشکلات وقتی ہوتی ہیں، مگر وہی مشکلات انسان کو کندن بناتی ہیں۔

ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہر ناکامی دراصل ایک سبق ہے، ایک موقع ہے بہتر ہونے کا۔ جو لوگ مشکلات میں صبر اور ثابت قدمی سے کھڑے رہتے ہیں، وقت خود ان کے قدموں تلے اپنی رفتار سست کر دیتا ہے۔ ہمت کرنے والے ہمیشہ ایک اور موقع کا انتظار کرتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہر طوفان کے بعد سکون کا ساحل آتا ہے اور ہر رات کے بعد ایک نئی صبح کا آغاز ہوتا ہے۔

"اگر آپ ہمت نہ ہاریں، تو شکست آپ کا مقدر نہیں ہو سکتی۔"

ایسے لوگ جو دل میں امید کا چراغ جلائے رکھتے ہیں، وہی زندگی کے اندھیروں کو روشنی میں بدلنے کا ہنر جانتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کامیابی صرف منزل پر پہنچنے کا نام نہیں بلکہ سفر کی ہر مشکل گھڑی میں اپنے قدموں کو جمائے رکھنا بھی ایک عظیم کامیابی ہے۔

جب زندگی آپ کے سامنے سوالیہ نشان بن کر کھڑی ہو، جب راستے دشوار اور خواب دھندلے نظر آنے لگیں، تب یاد رکھیں کہ یہی وقت آپ کو بڑا بناتا ہے۔ یہی وہ لمحات ہوتے ہیں جہاں ہمت، امید اور لگن کی اصل آزمائش ہوتی ہے۔ اگر آپ نے اس آزمائش میں خود کو ثابت کر دیا، تو کامیابی آپ کے دروازے پر دستک دے گی۔

زندگی کی معراج انہی کے قدم چومتی ہے جو ہر حال میں آگے بڑھتے ہیں۔
اگر آپ گر بھی جائیں، تو دوبارہ اٹھیں، اگر خواب دھندلا جائے تو اسے نئے سرے سے تراشیں۔ یاد رکھیں، دنیا میں کامیابی انہی کا مقدر بنتی ہے جو خواب دیکھنے کے ساتھ انہیں حقیقت میں بدلنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔

تو آج ہی قدم بڑھائیں، ہمت سے، امید سے، اور مستقل مزاجی کے ساتھ!
کیونکہ دنیا انہی کے قدموں میں جھکتی ہے جو خود کو جھکنے نہیں دیتے۔

عدنان صدیق
اتوار ،20 اکتوبر 2024

Address

THE GENERATION SCHOOL Sialkot Road Badiana
Sialkot
51410

Telephone

+923456101024

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Adnan Siddiqui posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Adnan Siddiqui:

Share

Category