06/11/2023
علاج بالغذا کی اہمیت
اللہ کریم نے بھوک پیدا کی ہے تاکہ انسان کو اپنی ضرورت غذا کا احساس ہو لیکن بھوک میں جو خوبیاں ہیں انسان نے ان کو نظر انداز کر کے اپنی غذائی ضرورت کا دارومدار اپنی خواہشات پر مقرر کر دیا ہے یعنی جس چیز کو دل چاہا جب چاہا کھا لیا. اس طرح رفتہ رفتہ بھوک کا تصور ہی ختم ہو گیا اس طرح ضرورت غذا اور خواہش غذا کا فرق ہی ختم ہو گیا لیکن قدرت کے فطری قوانین ایسے ہیں جو لوگ ان کی پیروی نہیں کرتے یا ان کو سمجھے بغیر زندگی میں من مانی اور مرضی کرتے ہیں وہ ہی امراض کا شکار ہوتے ہیں.
زندگی اور ضرورت غذا
غذا کی ضرورت کی ایک دلیل یہ ہے کہ جس طرح تیل چراغ کی بتی میں خرچ ہوتا ہے اور جلتا ہے اسی طرح انسان اور حیوان کے بدن کی حرارت اور رطوبت خرچ ہوتی ہے بالکل چراغ کے تیل اور بتی کی طرح جب وہ دونوں خرچ ہو جائیں تو چراغ بجھ جاتا ہے اسی طرح حرارت اور رطوبت انسانی ختم ہو جانے سے انسانی زندگی کا چراغ بھی گل ہو جاتا ہے. اس لئے غذا کی ضرورت انتہائی اہمیت رکھتی ہے.
طاقت غذا میں ہے
جاننا چاہئیے کہ انسانی جسم میں طاقت خصوصاً قوت مردمی کے کمال کا پیدا کرنا صرف مقوی اور اکسیر ادویات پر ہی منحصر نہیں ہے ادویات تو صرف جسم میں اپنے اثرات دے سکتی ہیں لیکن وہ جسم میں بذات خود خون, گوشت و چربی نہیں بن سکتیں کیونکہ یہ کام غذا کا ہے. پس جب تک علاج کے دوران صحیح اغذیہ کے استعمال کو اصولی طور پر مدنظر رکھ نہ رکھا جائے تو اکسیر سے اکسیر اور مقوی ادویات بھی اکثر بے سود ثابت ہوتی ہیں اگر ان کے مفید اثرات ظاہر بھی ہوں تو بھی غلط اغذیہ سے بہت جلد ان کے اثرات ضائع ہو جاتے ہیں.
حصول قوت میں اغذیہ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگائیں کہ اطباء نے تقویت کے لئے جو ادویات تجویز کی ہیں ان میں عام طور پر اغذیہ کو شامل کیا ہے مثلاً حلوہ جات, حریرہ جات, مربہ جات, خمیرہ جات, ماءاللحم اور روزانہ زندگی میں کھائی جانے والی اغذیہ میں پلاؤ, متنجن, زردہ, فرنی, سوجھی کی بنی ہوئی سویاں, پراٹھے یہ سب کچھ طاقت کو مدنظر رکھ کر ترتیب دئے گئے ہیں البتہ ان کا صحیح مقام پر استعمال ایک ماہر معالج ہی کر سکتا ہے.
غذا سے طاقت کی پیدائش
غذا صرف کھا لینے سے ہی طاقت پیدا نہیں ہوتی بلکہ حقیقی طاقت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب غذا کھانے کے بعد صالح اور مقوی خون بن جاتا ہے کیونکہ صحت اور طاقت کا دارومدار صالح اور مقوی خون پر ہے اور اس خون سے جسم انسان کو قوت ملتی ہے جو انسان میں غیر معمولی طاقت پیدا کر دے بلکہ وہ طاقت اس کو شیر کے مقابلے میں کھڑا کر سکتی ہے. اس کی مثال ہم پہلوان کو دیکھ سکتے ہیں جو کبھی دوائی کھا کر پہلوان نہیں بنتا بلکہ غذا کھا کر پہلوان بنتا ہے.
غذا اور طاقت
یہ حقیقت زہن نشین کر لیں کہ دنیا میں کوئی غذا بلکہ کوئی دوا ایسی نہیں جو جسم انسان کو بلاوجہ اور بلا ضرورت طاقت بخشے.
مثلاً دودھ ایک مسلمہ طور پر مقوی غذا سمجھی جاتی ہے لیکن جس کے جسم میں ریشہ اور بلغم کی زیادتی ہو اس کے لئے نہایت مضر ہے اسی طرح گوشت بھی مقوی اور مشہور غذا ہے لیکن جس کو بلڈ پریشر کا مسلہ ہو اس کو نقصان دیتا ہے .
اگلی نشست میں انشاءاللہ غذا کھانے کا صحیح طریقہ اور صحیح وقفہ پر لکھیں گے .
المعالج حکیم دوست محمد صابر ملتانی رح