13/06/2025
پنجاب کے تقریبا" تمام اضلاع میں #ایڈز اور #ہیپاٹائیٹس (کالا اور پیلا یرقان) کے پھیلاوء کی سب سے بڑی وجہ۔۔۔
#عطائیوں (بغیر کسی ڈگری کے ڈاکٹری کرنے والوں) کے انجیکشنز ،
دانتوں کا گندے آلات سے علاج،
بغیر سکرینگ کے بلڈ ٹرانسفیوژن اور
تحصیل اور ضلعی کی ایمرجنسی ٹراما سنٹرز ہیں جہاں بغیر کسی سٹرلائزیشن کے ایک یا دو مائنر سرجیکل سیٹس سے ہی پوری تحصیل کے زخم سی دیئے جاتے ہیں۔
آپ کسی بھی کے ایمرجنسی ٹراما سنٹر چلے جائیں ، وہاں آپکو زیادہ سے زیادہ 2 سرجیکل(مائنر) سیٹس موجود ملیں گے، اور ان آلات کے بھی آدھے حصے یا تو ٹیڑھے ہونگے یا ٹوٹے ہونگے اور ان تمام آلات جراحی پہ آپکو خون کے دھبے بھی لازمی ملیں گے۔ اسکا مطلب کہ ان آلات کی سٹرلائزیشن تو دور کی بات ہے انکو اچھی طرح دھویا بھی نہیں جاتا اور اسی طرح اگلے مریض پر استعمال کر دئیے جاتے اور پھر اس سے اگلوں پر بھی۔
اب صبح پہلا زخمی مریض ہی اگر ہیپاٹائٹس یا ایڈز کا آگیا اور اسکے زخم کی صفائی اور ٹانکے ان آلات سے لگے پھر اگلے 24 گھنٹے میں آنے والے تمام زخمی مریض (خواہ وہ بڑے ہوں یا بچے) یہ بیماریاں لازمی لے کر جائیں گے۔
اگر محکمہ کا کوئی اعلی سطحی آفیسر یا مانیٹرنگ اسسٹنٹ چیک کرنے آ بھی جائے تو اسے پوچھنے پر اسی ٹراما سنٹر کے ایک گندے سے کونے میں پڑا ہوا ایک دقیانوسی "بوائلر" دکھا دیا جاتا ہے کہ جی ایک مریض کے زخم سینے کے بعد ہم ان آلات کو اس میں بوائل کرتے ہیں اور پھر اگلے مریض پر استعمال کرتے ہیں۔
چونکہ محکمہ صحت کے سیکرٹری لیول کے تمام مینجرز اکثر نان پروفیشنل (نان میڈیکل) لوگ ہوتے ہیں (اور اسی طرح عوامی نمائندے بھی)۔
اب ایک تو سیکرٹری صاحب کا پروٹوکول اور پھر انکی رعونت اور پھر صرف میڈیا کے کیمرے میں فوٹو بنوانے اور جلدی نکلنے کی جلدی اور اصل میں انکا میڈیکل کے لوکل حقائق سے نابلد ہونا کہ انہوں نے ان آلات کو سٹرلائزیشن کوالٹی چیک کیلئے کبھی لیب میں نہیں بھیجا اور نہ اس نام نہاد گندے سے بوائلر کو کبھی نہ تو خود ہاتھ لگایا اور نہ ہی کبھی چلوا کر دیکھا۔ حالانکہ اس میں دور سے ہی فنگس لگی نظر آرہی ہوتی ہے۔
لہذا اگلے وزٹ تک کیلئے ایڈز، ہیپاٹائٹس اور دوسری مہلک بیماریاں پھیلانے کا سرکاری لائسنس مل جاتا ہے، کیونکہ "All Ok" کی رپورٹ بن گئی ہے۔
دوسری اہم بات یہ کہ تقریبا" تمام تحصیل و ضلعی ہسپتالوں میں ٹراما ایمرجنسی سنٹرز میں کام کرنے والے کوالیفائیڈ پیرا میڈیکل #سٹاف کی شدید کمی ہے۔ اکثر ہسپتالوں میں تو آپکو ہومیوپیتھک ڈسپنسر یا وارڈ بوائے یا سویپر کی سیٹ پہ بھرتی کیا ہوا بندا لوگوں کے زخم سیتا نظر آتا ہے۔ اب ان لوگوں کو سٹرلائزیشن کا سرے سے علم ہی کوئی نہیں ہوتا تو یہ انکا قصور ہی نہیں۔
بیس سال پہلے ایک تحصیل کے تمام مریضوں کے علاج کیلئے جتنا میڈیکل و پیرا میڈیکل سٹاف تھا آج آبادی میں شدید اضافے کے بعد بھی انکی اتنی ہی سیٹیں ہیں۔ جہاں پہلے ان سنٹرز میں دس زخمی مریض آتے تھے وہاں اب 200 آتے ہیں ، لیکن سٹاف پہلے جتنا ہی، اور ہے بھی غیر تربیت یافتہ۔
ایسا نہیں ہے کہ ہسپتالوں کے ایم ایس ، ضلعی چیف ایگزیکٹوز اور دوسرے ہیلتھ پروفیشنلز کو اسکا علم نہیں ہے بلکہ اصل میں مریضوں کا شدید لوڈ اور سٹاف کی کمی، بے ہنگم ایمرجنسی (ایک مریض کے ساتھ دس ،دس لواحقین) اور اسے پیدا شدہ روزانہ کے پھڈے، ٹاپ ہیلتھ مینجرز کا ایم ایس حضرات کو فضول کی ڈاکومینٹیشن اور اپڈیٹس میں الجائے رکھنا، اور ان سب ایم ایس حضرات کی اپنی ڈنگ ٹپاوء پالیسی اسکی ذمہ دار ہے۔
فی الوقت صورت حال یہ ہے کی کوئی مرتا ہے تو مر جائے اپنا وقت نکالو بس۔ بے مقصد انڈیکٹرز پورے کرو بس۔
پاکستانی قوم کے ہر پڑھے لکھے اور باعقل نوجوان کو چاہئے کہ اپنے گھر والوں اور قریب کے سب لوگوں کو سٹرلائزیشن کی معلومات دے اور بچنے کے طریقے سمجھائے۔ اس ملک میں محکمہ صحت کی ترجیحات شاید کہ کبھی تبدیل نہ ہوں، شاید عوام چاہتی بھی نہیں ہے (کیونکہ ہسپتال میں ہر بندہ جلدی بلکہ فوری علاج چاہتا ہے، انجام چاہے کچھ بھی ہو۔ ) ہر ذہ شعور آدمی پہلے سٹرلائزیشن کی اہمیت کو سمجھے اور پھر سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتال کے ٹراما سنٹر جا کر لازمی دیکھے کہ کہاں غلط ہو رہا اور پھر نوٹس میں لائے۔ تحریر مفاد عامہ کیلئے حقائق دیکھنے کے بعد لکھی گئی۔ (copy and paste)