Dr. Ashfaq ur Rehman Chest &TB Clinic

Dr. Ashfaq ur Rehman Chest &TB Clinic Chest/TB clinic at Timergara is a page created for the awareness of community about chest diseases

آج چسٹ او پی ڈی میں تقریبا پانچ چھ سال کی ایک بچی لائی گئی جس کو بیس دنوں سے کھانسی، بخار اور سانس لینے میں دشواری کا سا...
31/07/2025

آج چسٹ او پی ڈی میں تقریبا پانچ چھ سال کی ایک بچی لائی گئی جس کو بیس دنوں سے کھانسی، بخار اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا۔بچی کا والد انتہائی غریب شخص تھا جو کہ کسی مقامی مسجد میں امام تھا۔ بچی کا ایکسرے کروایا گیا تو ایک طرف بالکل سفید تھا چونکہ بچی کو شدید بخار تھا اور اس کا ٹی ایل سی بھی کافی زیادہ تھا یعنی بیس ہزار تو ہمارا ذہن پیرا نمیونک پلیورل ایپیوجن یا ایمپائما کی طرف گیا۔ہم نے چسٹ اوپی ڈی میں الٹراساونڈ گائیڈڈ پلیورل ٹیپ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔
میں اس کو مین الٹراساونڈ اوپی ڈی میں لے گیا لیکن الٹراساونڈ پر صورت حال واضح نہ ہوسکا اس لئے سی ٹی سکین کروایا گیا جس میں پتہ چلا کہ بائیاں پھیپھڑا پورا کولیپسڈ ہوچکا۔بعد ازاں اس کو ای این ٹی ڈیپارٹمنٹ میں ریفر کیا گیا انہوں نے ریجیڈ برنکوسکوپی کے ذریعے ايملي کے بیج کا مغز نکالا۔ حالانکہ بچی کے والد کا کہنا تھا کہ میں تو اس کو صرف کھانسی اور بخار کے لیے لایا تھا، مجھے تو یہاں ڈاکٹروں سے پتہ چلا کہ بچی کے سانس کی نالی میں کوئی چیز پھنس چکی ہے۔
جدید میڈیکل سائنس انسانیت کے لئے شاندار تحفہ ہے اور اگر ڈاکٹرز نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ کام کرنا چاہیں تو ا۔مریضوں کی خدمت کرکے دنیا اور آخرت کی کامیابی سمٹ سکتا ہے۔

ڈاکٹر اشفاق الرحمن چسٹ اینڈ ٹی بی سپیشلسٹ تیمرگرہ

گھوڑے کے پھیپھڑے غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں — یہ تقریباً 70 لیٹر ہوا محفوظ کر سکتے ہیں، جو ایک بڑے کوڑے دان کے برابر ہے...
05/07/2025

گھوڑے کے پھیپھڑے غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں — یہ تقریباً 70 لیٹر ہوا محفوظ کر سکتے ہیں، جو ایک بڑے کوڑے دان کے برابر ہے۔ جب یہ پھیپھڑے پوری طرح پھیلتے ہیں، تو یہ اپنے اصل سائز سے دو گنا ہو جاتے ہیں، جس سے گھوڑے کو دوڑنے کے دوران بھرپور آکسیجن فراہم ہوتی ہے۔ یہی اضافی آکسیجن گھوڑے کو طاقتور دوڑ، استقامت، اور تھکن برداشت کرنے میں مدد دیتی ہے۔
لمبی دوری کی دوڑ یا کسی شدید جسمانی سرگرمی میں یہی نظام تنفس اسے دوسروں سے ممتاز بناتا ہے، جو گھوڑے کو ایک ناقابلِ شکست ایتھلیٹ بناتا ہے۔

بعض اوقات بظاہر چسٹ ایکسرے نارمل نظر آتا ہے لیکن غور سے دیکھنے پر بہت کچھ نظر اسکتاہے۔ جیساکہ نیچے دیے گئے ایکسرے میں بظ...
10/05/2025

بعض اوقات بظاہر چسٹ ایکسرے نارمل نظر آتا ہے لیکن غور سے دیکھنے پر بہت کچھ نظر اسکتاہے۔ جیساکہ نیچے دیے گئے ایکسرے میں بظاہر کوئی خاص بیماری نظر نہیں آرہی لیکن بغور دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس ایکسرے میں دایاں ڈایافرام نہ صرف یہ کہ اوپر چلا گیا ہے بلکہ ناہموار بھی ہے۔ جب میں نے اس مریض کا الٹراساونڈ کیا تو اس کے جگر میں ایک سے زیادہ رسولیاں تھے اور ایک رسولی بالکل ڈایافرام کے نیچے تھی بلکہ ڈایافرام کو ٹچ کررہی تھی جس کی وجہ سے ایکسرے پر ڈایافرام نہ صرف یہ کہ اوپر چلا گیا تھا بلکہ ناہموار بھی تھا۔ مریض سے ہسٹری لینے پر معلوم ہوا کہ وہ ہیپاٹائٹس سی کی وجہ سے جگر کے کینسر کا شکار ہوچکا ہے اور اس کے لئے علاج لے رہا ہے۔

ڈاکٹر اشفاق الرحمن چسٹ اینڈ ٹی بی سپیشلسٹ

آج کل ہوا میں پولن کی مقدار کافی زیادہ ہے جس کی وجہ سے سانس کے مریضوں کی تعداد بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ جہاں بڑے بوڑھے بزرگ ا...
22/04/2025

آج کل ہوا میں پولن کی مقدار کافی زیادہ ہے جس کی وجہ سے سانس کے مریضوں کی تعداد بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ جہاں بڑے بوڑھے بزرگ اس سے متاثر ہوجاتے ہیں وہاں بچوں پر بھی اس کا منفی اثر پڑتا ہے۔ اکثر ایسے بچے جن کو پولن الرجی ہوتی ہے وہ شدید کھانسی اور سانس بند ہونے کی وجہ سے اوپی ڈی اور ایمرجنسی میں آتے ہیں۔

پولن الرجی کی علامات:

ناک بہنا
چھینکنا
ناک بند ہونا
کھانسی
سانس لینے میں دشواری
سینے میں تنگی
آنکھوں میں خارش اور لالی
جلد پر خارش اور دانے

پولن الرجی سے بچاؤ کے طریقے:

اپنے آپ کو پولن سے دور رکھیں۔
گھر کے اندر اور باہر صفائی کا خیال رکھیں۔
الرجی کی دوائیں استعمال کریں ۔
ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔
اگر پولن الرجی کی علامات نظر آئیں تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

بچوں میں بھی پولن الرجی ایک عام مسئلہ ہے، جو ہر سال لاکھوں بچوں کو متاثر کرتا ہے۔
پولن الرجی کی علامات ہلکی سے لے کر شدید تک ہو سکتی ہیں۔
پولن الرجی کا علاج الرجی کی دواؤں اور دیگر علاج سے کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر اشفاق الرحمن چسٹ اینڈ ٹی بی سپیشلسٹ۔

کیا واقعی ڈاکٹر قصائی ہیں؟ — ذرا رُک کر سوچیںجب کوئی مریض اسپتال میں دم توڑتا ہے، جب کوئی بچہ وقت پر آکسیجن نہ ملنے سے ج...
20/04/2025

کیا واقعی ڈاکٹر قصائی ہیں؟ — ذرا رُک کر سوچیں

جب کوئی مریض اسپتال میں دم توڑتا ہے، جب کوئی بچہ وقت پر آکسیجن نہ ملنے سے جان ہار جاتا ہے، جب کسی کے پیارے کی بیماری بگڑ جاتی ہے… تو دل سے ایک فریاد نکلتی ہے، "یہ ڈاکٹر قصائی ہیں!"
مگر کیا کبھی آپ نے سوچا، اُس ڈاکٹر کے دل پر کیا گزرتی ہے؟

کیا آپ نے کبھی رات 3 بجے اسپتال کی ایمرجنسی میں، اپنی نیند اور اپنے سکون کو قربان کر کے، ایک اجنبی کی جان بچانے والے ڈاکٹر کی آنکھوں میں جھانکا ہے؟
کیا آپ نے دیکھا ہے کہ کیسے ایک نوجوان ڈاکٹر 36 گھنٹے کی ڈیوٹی کے بعد بھی بغیر شکایت کے اگلے مریض کو چیک کرتا ہے؟
نہیں… کیونکہ ہم صرف تب دیکھتے ہیں جب کچھ غلط ہو۔

ڈاکٹر صرف ہسپتال میں ڈاکٹر نہیں ہوتا !
آپ اُسے شادی میں روک کر دوائی پوچھ لیتے ہیں، راستے میں ایکسرے دکھا دیتے ہیں، گلی میں ملیں تو بچے کا بخار بتا دیتے ہیں اور وہ بغیر نخرے کے، بغیر فیس کے، آپ کو جواب دیتا ہے۔
کیا کسی اور پیشے کا شخص یہ کرتا ہے؟ جج، پولیس افسر، وکیل، یا انجینئر؟
پھر بھی تنقید صرف ڈاکٹر پر کیوں؟

ڈاکٹر بننے کا سفر ایک قربانیوں بھرا راستہ ہے۔
میٹرک ، انٹر میں مقابلے کی دوڑ، انٹری ٹیسٹ کا دباؤ، پھر پانچ سال کا مشکل ترین ایم بی بی ایس، ایک سال کی ہاؤس جاب، چار سے پانچ سال کی اسپیشلائزیشن، اور سپر اسپیشلسٹ بننے کے لیے مزید دو سال — وہ بھی سخت امتحانات، وسیع نصاب، اور مسلسل ذہنی دباؤ کے ساتھ۔
یہی نہیں، ایک ڈاکٹر کے لیے عید ہو یا کسی پیارے کی شادی، اکثر فرض پہلے ہوتا ہے۔ وہ ڈیوٹی پر ہوتا ہے جب سب خوشیاں منا رہے ہوتے ہیں۔ اُس کی سوشل زندگی، ذاتی لمحے، سب قربان ہوتے ہیں — صرف انسانیت کی خدمت کے لیے۔

جب ایک تجربہ کار پروفیسر ڈاکٹر، جس نے اپنی ساری زندگی طب کے شعبے کو دی، فیس لیتا ہے تو ہم اُسے لٹیرا کہتے ہیں؟
جبکہ وکیل مہنگا ہو تو "کامیاب"، انجینئر مہنگا ہو تو "قابل"، مگر ڈاکٹر مہنگا ہو تو "ظالم"؟
سینئر ڈاکٹر، پروفیسر، یا سپیشلسٹ — اُن کی فیس اُن کی مہارت، تجربے اور قربانیوں کی قیمت ہے۔
کیا ایک نوبیل انعام یافتہ سائنسدان اور ایک عام ٹیچر کی تنخواہ برابر ہو سکتی ہے؟
پھر ڈاکٹر کے ساتھ یہ دوہرا معیار کیوں؟

پاکستانی ڈاکٹرز بلا شبہ دنیا کے بہترین معالج ہیں۔
یہی ڈاکٹر جب امریکہ، برطانیہ یا کینیڈا جاتے ہیں، تو وہاں کے اسپتالوں میں پروفیسر، ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹس، اور ریسرچ لیڈرز بنتے ہیں۔
یہ وہی پاکستانی ڈاکٹر ہوتے ہیں جنہیں ہم یہاں “قصائی” کہہ دیتے ہیں۔
وہ دنیا میں میڈیکل بُکس کے مصنف، نامور اسپیشلسٹ، اور انسانی خدمت کی مثال ہیں — یہ ہمارے اصل ہیرو ہیں۔

پاکستان میں، آپ براہِ راست کسی بھی سپیشلسٹ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ آپ کا بچہ بیمار ہے؟ سیدھا چائلڈ سپیشلسٹ کے پاس جائیں۔دنیا کے کئی ممالک جیسے برطانیہ میں، آپ کو پہلے جنرل پریکٹشنر کے پاس جانا پڑتا ہے، وہاں سے ریفرل لینا پڑتا ہے، اور پھر مہینوں بعد اسپیشلسٹ سے ملنے کا وقت ملتا ہے۔
ایمرجنسی کی بات کریں تو وہاں بھی ٹرائیج سسٹم ہوتا ہے — آپ کی حالت زیادہ سنگین نہ ہو تو گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔
جبکہ پاکستان میں، آپ براہِ راست ایمرجنسی میں ڈاکٹر کے سامنے ہوتے ہیں۔

سرکاری اسپتالوں میں اکثر ایسا ہوتا ہے ڈاکٹرز ٹیسٹ اور ادویات کے لیے مریضوں کو اپنی جیب سے پیسے دے رہے ہوتے ہیں ،صرف اس لیے کہ اُس کے سامنے ایک انسان تکلیف میں ہے۔
مگر یہ کہانیاں کبھی وائرل نہیں ہوتیں، نہ ہی ہیڈلائن بنتی ہیں۔

کالی بھیڑیں ہر شعبے میں ہوتی ہیں اور میں اس سے انکاری نہیں،
جو ڈاکٹر بددیانتی کرتا ہے، کمیشن پر دوائیں لکھتا ہے، وقت پر نہیں آتا — وہ مجرم ہے۔
اُسے سزا ضرور ملنی چاہیے۔
مگر چند غلط چہرے، ہزاروں نیک نیت، محنتی ڈاکٹروں کو دھندلا نہ کریں۔

پاکستان کے بیشتر سرکاری اسپتال اپنی اصل صلاحیت سے پانچ گنا زیادہ مریضوں کا علاج کر رہے ہوتے ہیں۔ جہاں روزانہ سو مریضوں کا انتظام ہونا چاہیے، وہاں پانچ سو سے زائد مریض آ جاتے ہیں۔ او پی ڈی(OPD) مریضوں کا ہجوم روزانہ کی حقیقت ہے۔ قطاریں، شور، بےچینی اور درمیان میں ایک تھکا ہارا ڈاکٹر، جو سب کو سننے کی کوشش کرتا ہے۔
ڈاکٹر کو معلوم ہے کہ ہر مریض احترام، توجہ اور رہنمائی کا حق رکھتا ہے۔مگر اُسے جلدی کرنی پڑتی ہے چند منٹ میں چیک اپ، دوا، مشورہ… تاکہ زیادہ سے زیادہ مریض دیکھے جا سکیں۔
نتیجہ کئی مریض عدم اطمینان کا شکار ہو جاتے ہیں، اور الزام ڈاکٹر پر آتا ہے. نہ تو مریض قصوروار ہے، نہ ہی وہ ڈاکٹر جو اپنی نیند، تھکن اور ذاتی زندگی کو قربان کر کے سینکڑوں مریضوں کی خدمت کر رہا ہے۔
قصور نظام کا ہے — جس میں وسائل کم، آبادی زیادہ، اور دباؤ ناقابلِ تصور ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ چھوٹے شہروں میں بنیادی سہولیات فراہم کرے، ریفرل سسٹم بنائے، اور میڈیکل شعبے میں اصلاحات لائے
اور ہمیں چاہیے کہ ہم ڈاکٹر کو صرف الزام کا نشانہ نہ بنائیں، اُس کی قربانی، اُس کی محنت، اُس کی انسانیت کو تسلیم کریں۔

آخر میں ایک سوال — اگر واقعی ڈاکٹر قصائی ہیں، تو پھر شفا کہاں سے آئے گی؟

الحمد للہ بعض مریض ہماری توقعات سے بھی بڑھ کر صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ یہ اماں جی جن کی عمر تقریبا 80 سال ہے میرے پاس جنوری ...
15/04/2025

الحمد للہ بعض مریض ہماری توقعات سے بھی بڑھ کر صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ یہ اماں جی جن کی عمر تقریبا 80 سال ہے میرے پاس جنوری میں آئی تو وہیل چئیر پر آئی تھی اور اس کی حالت کافی خراب تھی۔ ریسپائریٹری ڈیسٹریس میں تھی اور آکسیجن سیچوریشن تقریبا 71 فیصد تھی ۔ ایکسرے چسٹ میں انفیکشن کے ساتھ ساتھ دونوں پھیپھڑوں میں پانی بھر چکا تھا(پلیورل ایپیوجن )۔ مریض کے دونوں پاؤں سوجھ چکے تھے۔ایکو کارڈیوگرافی پر شدید پلمونری ہائیپرٹینشن دیا گیا۔ مجموعی طور پر مریض کو دائمی سی او پی ڈی کی وجہ سے کارپلمونیل ہوچکا تھا۔ مریض کو داخل کردیا اور ضروری علاج معالجے کے بعد گھر پر آکسیجن کا بندوبست کرکے ڈسچارج کردیا گیا۔ تقریبا دو ہفتے کے بعد جب معائنہ کیا گیا تو مریض کی حالت اگر چہ پہلے سے بہت بہتر تھی لیکن آکسیجن سیچوریشن پھر بھی کم تھی اس لئے دوائیوں کے ساتھ مزید آکسیجن تجویز کیا گیا۔
آج جب مریض کو معائنے کے لئے تقریبا دو ماہ بعد لايا گیا تھا تو مریض، آکسیجن سیچوریشن اور ایکسرے کو دیکھ کر مجھے خود یقین نہیں آیا کہ آیا یہ وہی مریض ہے جو دو ماہ پہلے میں نے دیکھا تھا؟
آکسیجن سیچوریشن (بغیر سپورٹ کے ) 92 فیصد تھی اور مریض خو اپنے پاؤں پر سیڑھیاں چڑھ کر ائی۔ایکسرے بھی کافی حد تک کلئیر ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر اشفاق الرحمن چسٹ اینڈ ٹی بی سپیشلسٹ تیمرگرہ

سموگ اور سانس کی بیماریاں۔سموگ ایک قسم کی ہوائی آلودگی ہے جو دھواں، دھول اور دیگر نقصان دہ مادوں کے مجموعہ سے بنا ہوتا ہ...
10/11/2024

سموگ اور سانس کی بیماریاں۔

سموگ ایک قسم کی ہوائی آلودگی ہے جو دھواں، دھول اور دیگر نقصان دہ مادوں کے مجموعہ سے بنا ہوتا ہے۔ یہ موسم سرما میں زیادہ عام ہوتا ہے، جب ہوا سرد اور خشک ہوتی ہے اور آلودگی کی ذرات کا ہوا میں پھنسنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔

سموگ کا انسانی صحت پر وسیع پیمانے پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ یہ فوری اور طویل مدتی دونوں مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔

فوری اثرات۔

اچانک سانس کی تکلیف کا بڑھ جانا، کھانسی اور ناک بہنا
آنکھوں میں جلن اور خارش،سر درد اور تھکاوٹ، سینے میں درد اور سینے میں تنگی۔

ان اثرات کا سامنا کرنے کا زیادہ امکان ان لوگوں میں ہوتا ہے جو پہلے سے دل کی بیماری، سانس کی بیماری یا دیگر صحت کی خرابیوں سے متاثر ہوتے ہیں۔

طویل مدتی اثرات۔

پھیپھڑوں کی بیماری، جیسے دمہ اور سی او پی ڈی، دل کی بیماری،کینسر، خاص طور پر پھیپھڑوں کا کینسر۔
ان اثرات کا سامنا کرنے کا زیادہ امکان ان لوگوں میں ہوتا ہے جو اکثر سموگ کے شکار علاقوں میں رہتے ہیں یا کام کرتے ہیں۔

سموگ سے بچنے کے لیے آپ کچھ چیزیں کر سکتے ہیں مثلا

سموگ کی سطح زیادہ ہونے پر گھر سے باہر نکلنے سے گریز کریں۔
اگر آپ گھر سے باہر ہوتے ہیں تو چہرے کو ڈھانپ کر رکھیں۔
اپنے گھر کے اندر ہوا کی صفائی کو یقینی بنانے کے لیے ہوا صاف کرنے والے آلات کا استعمال کریں۔
سموگ صحت کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے اور اس سے بچنے کے لیے انفرادی طور پر اور حکومتی سطح اقدامات کرنا ضروری ہے۔

ڈاکٹر اشفاق الرحمن چسٹ اینڈ ٹی بی سپیشلسٹ تیمرگرہ۔

کچھ لوگ پرندے پالنے کے شوقین ہوتے ہیں لیکن ہر شوق کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ پرندوں کے پروں اور فضلے میں کچھ خاص زرات/جراثیم/ا...
01/11/2024

کچھ لوگ پرندے پالنے کے شوقین ہوتے ہیں لیکن ہر شوق کی ایک قیمت ہوتی ہے۔
پرندوں کے پروں اور فضلے میں کچھ خاص زرات/جراثیم/اینٹی جن ہوتے ہیں جو کہ پھیپھڑوں کی ایک خاص بیماری کا سبب بنتے ہیں جس کو ہائیپر سینسیٹیوٹی نمونائیٹس کہا جاتا ہے۔ یہ بیماری شروع شروع میں اتنی ہلکی ہوسکتی ہے کہ نہ تو مریض کو بروقت پتہ چل جاتا ہے اور نہ علاج کرنے والے ڈاکٹر کو۔ مریض اکثر ہلکی کھانسی، بخار، جسم میں درد، سانس لینے میں دشواری اور تھکاوٹ کی شکایت کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے جس کو عام نزلہ زکام کے طور پر لیا جاتا ہے۔دوائیوں سے وقتی آرام آنے کی صورت میں مریض اور ڈاکٹر دونوں مطمئن ہو جاتے ہیں لیکن کچھ عرصہ بعد دوبارہ یہی مسئلہ سر اٹھاتا ہے اور پھر یہ سلسلہ طول پکڑتا ہے۔ اکثر صحیح تشخیص/ڈائیگنوسس تک پہنچنے میں اتنا وقت ضائع ہوجاتا ہے کہ مرض ناقابل علاج ہوجاتا ہے اور پھیپھڑے سکڑجاتے ہیں۔

پھیپھڑوں کے سکڑنے کی وجہ سے بدن کو آکسیجن کی سپلائی متاثر ہوجاتی ہے جس کا اثر پھیپھڑوں میں موجود خون کی شریانوں پر بھی پڑ جاتا ہے اور خون کی شریانوں میں خون کا پریشر بڑھ جاتا ہے جس کو پلمونری ہائیپر ٹینشن کہا جاتا ہے۔

پلمونری ہائیپر ٹینشن کی وجہ سے دل کے دائیں جانب پر دباؤ بڑھ جاتا ہے اور آخر کار دل کا دائیاں طرف فیل ہو جاتا ہے۔ایسی حالت کو پھر کارپلمونیل کہا جاتا ہے جو کہ اس بیماری کا آخری سٹیج ہوتا ہے۔
ڈاکٹر اشفاق الرحمن چسٹ اینڈ ٹی بی سپیشلسٹ تیمرگرہ۔

انہلیرز اور ڈرائی پاؤڈر انہلیرز (DPIs) کے بارے میں کچھ عام غلط توہمات !غلط فہمی 1: انہیلرز صرف شدید دمہ کے مریضوں کے لیے...
29/10/2024

انہلیرز اور ڈرائی پاؤڈر انہلیرز (DPIs) کے بارے میں کچھ عام غلط توہمات !

غلط فہمی 1: انہیلرز صرف شدید دمہ کے مریضوں کے لیے ہیں جبکہ
در حقیقت انہیلرز مختلف نوعیت کے دمہ کے علاج کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ بلکہ یہ اکثر دمہ کے علاج کے لیے پہلی لائن تھراپی کے طور پر تجویز کیے جاتے ہیں۔

غلط فہمی 2: انہیلرز استعمال کرنا مشکل ہے جبکہ درحقیقت انہیلرز استعمال کرنا نسبتاً آسان ہے۔ مختلف قسم کے انہیلرز دستیاب ہیں، اور ڈاکٹر آپ کو یہ سکھانے میں مدد کر سکتا ہے کہ آپ کا مخصوص انہیلر کیسے استعمال کیا جائے۔

غلط فہمی 3: انہیلرز لت ( addiction ) لگانے والے ہیں جبکہ درحقیقت انہیلرز لت لگانے والے نہیں ہیں بلکہ دوائیوں کی ایک قسم ہیں جو سانس کی نالیوں کو کھولنے اور سانس لینے کو آسان بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔

غلط فہمی 4: انہیلرز صرف دمہ کے شدید حملوں کے علاج کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ در حقیقت انہیلرز شدید حملوں کے علاج اور روک تھام دونوں کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ انہیں باقاعدگی سے لینے سے دمہ کو قابو میں رکھنے اور حملوں کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔

غلط فہمی 5: انہیلرز بچوں کے لیے محفوظ نہیں ہیں جبکہ در حقیقت انہیلرز عام طور پر بچوں کے لیے محفوظ ہیں۔ تاہم، اپنے بچے کو انہیلر دینے سے پہلے اپنے ڈاکٹر سے بات کرنا ضروری ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ آپ کے بچے کے لیے صحیح ہے اور اسے صحیح طریقے سے کیسے استعمال کرنا ہے۔

انہیلرز دمہ کے لیے ایک موثر علاج ہو سکتے ہیں، لیکن یہ ضروری ہے کہ آپ انہیں اپنے ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق استعمال کریں۔

سینے کی بیماریوں کی تشخیص میں ایکسرے چسٹ کا بہت اہم رول ہے لیکن اس کے لئے بہترین ا کوالٹی کی  ایکسرے چاہیے۔ نیچے دی گئی ...
19/10/2024

سینے کی بیماریوں کی تشخیص میں ایکسرے چسٹ کا بہت اہم رول ہے لیکن اس کے لئے بہترین ا کوالٹی کی ایکسرے چاہیے۔

نیچے دی گئی ایکسرے ایک ہی شخص کی ہیں جو ایک ہی دن لی گئی ہیں لیکن دونوں کی کوالٹی میں بہت فرق ہے اور آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ فرق صرف ایک ٹیکنیکل غلطی سے آیا ہے۔

ایک ایکسرے میں مریض نے سانس باہر نکالا ہوا ہے جس کی وجہ ایکسرے میں اس کا دل بھی بڑا نظر ارہا ہے اور پھیپھڑوں کی شریانیں بھی بڑی نظر آرہی ہے۔اس کے علاوہ ایسا لگتا ہے کہ پھیپھڑوں میں انفیکشن بھی ہے (لیفٹ لوئر لوب اوپیسٹی ) حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں جیسا کہ دوسرے ایکسرے سے ظاہر ہوتا ہے۔

پہلے ایکسرے کو ایکپائریٹری جبکہ دوسرے کو انسپائریٹری ایکسرے کہا جاتا ہے۔

ڈاکٹر اشفاق الرحمن چسٹ اینڈ ٹی بی سپیشلسٹ تیمرگرہ۔

یہ جو بظاہر نارمل نظر آنے والا ایکسرے ہے یہ ایک پچیس سالہ نوجوان کا  ہے جس کو بچپن سے کھانسی، سانس پھولنا، سینے میں درد ...
08/10/2024

یہ جو بظاہر نارمل نظر آنے والا ایکسرے ہے یہ ایک پچیس سالہ نوجوان کا ہے جس کو بچپن سے کھانسی، سانس پھولنا، سینے میں درد ،زیادہ بلغم آنا اور بخار کی شکایت ہوتی رہتی ہے جس کے لیے اکثر و بیشتر مختلف ڈاکٹرز کے پاس آنا جانا لگا رہتا ہے۔ دوائیوں سے وقتی آرام اجاتا ہے لیکن بار بار تکلیف ہوتی ہے۔

ایکسرے کو بہ غور دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ مریض کے بائیں پھیپھڑے کے نچلے حصے ( لوئر زون يعني دل کے پیچھے والے حصے ) میں برونکیکٹیسس ہے۔ يعني پھیپھڑے کا یہ حصہ مستقل طور پر نقصان زدہ ہوچکا ہے۔ چونکہ ایکسرے پر یہ پتہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ لوئر لوب پورا کا پورا نقصان زدہ ہے یا اس کے ایک یا دو سیگمنٹس اور اس کے علاوہ باقی پھیپھڑے صحیح سلامت ہیں یا کہیں اور بھی مسئلہ ہے اس لئے مریض کا سی ٹی سکین کروایا گیا۔ سی ٹی سکین سے واضح ہوگیا کہ مسئلہ صرف لوئر لوب کے ایک سیگمنٹ ( پوسٹیریر بیسل سیگمنٹ ) میں ہے۔

ایسے مریض کو ایک چھوٹے سے آپریشن سے بہت فائدہ ہوسکتا ہے لہذا مریض کو تھوریسک سرجن کے پاس ریفر کیا گیا۔

ڈاکٹر اشفاق الرحمن چسٹ اینڈ ٹی بی سپیشلسٹ

04/10/2024

فلو ویکسین کیا ہے؟

انفلوئنزا (فلو) ویکسین وہ ویکسین ہیں جو انفلوئنزا وائرس کے چار اقسام سے حفاظت کرتی ہیں جن کے بارے میں تحقیق بتاتی ہے کہ یہ چار اقسام آنے والے سیزن میں زیادہ عام ہوں گی۔ زیادہ تر فلو ویکسین سوئی کے ساتھ بازو میں دی جاتی ہیں لیکن ناک میں اسپرے والے فلو ویکسین بھی دستیاب ہوتی ہیں۔

دستیاب فلو ویکسین میں شامل ہیں:

1۔ معیاری خوراک والے فلو شاٹس جو انڈے میں اگائے جانے والے وائرس کا استعمال کرتے ہوئے تیار کیے جاتے ہیں۔
معیاری خوراک کے فلو شاٹس کے کئی مختلف برانڈز دستیاب ہیں۔

یہ ویکسین 6 ماہ تک کے بچوں میں استعمال کے لیے منظور شدہ ہیں۔ زیادہ تر فلو شاٹس بازو (پٹھوں) میں سوئی سے دیے جاتے ہیں۔

انفلوئنزا (فلو) ویکسین کی تاثیر مختلف ہو سکتی ہے۔ فلو کی ویکسین کے ذریعے فراہم کردہ تحفظ ہر موسم میں مختلف ہوتا ہے اور یہ جزوی طور پر ویکسین حاصل کرنے والے شخص کی عمر اور صحت کی حالت پر منحصر ہوتا ہے اور ویکسین اور ماحول میں موجود وائرسوں کے درمیان مماثلت پر بھی منحصر ہوتا ہے ۔

فلو ویکسینیشن کے فوائد ۔

فلو کی ویکسین ہر سال لاکھوں بیماریوں اور فلو کی وجہ سے ڈاکٹر کے پاس جانے سے روکتی ہے۔ مثال کے طور پر، 2019-2020 کے دوران، COVID-19 وبائی مرض سے پہلے کے آخری فلو سیزن، فلو کی ویکسینیشن نے اندازاً 7.5 ملین انفلوئنزا کی بیماریوں، 3.7 ملین انفلوئنزا سے وابستہ طبی وزٹ، 105,000 انفلوئنزا سے وابستہ ہسپتال میں داخلے کو روکا۔

سردی کے موسم کے دوران جب فلو ویکسین کے وائرس ماحول میں گردش کرنے والے فلو وائرس سے مطابق ہو تو فلو کی ویکسین فلو کی وجہ سے ڈاکٹر کے پاس جانے کے خطرے کو 40 سے 60 فیصد تک کم کرتی ہے۔

کئی سٹڈیز میں دکھایا گیا ہے کہ اگر چہ فلو ویکسین کے باوجود کچھ لوگوں کو فلو ہوجاتی ہے لیکن ان لوگوں میں بیماری کی شدت کم ہوتی ہے ۔

بعض دائمی بیماریوں والے لوگوں کے لیے فلو ویکسینیشن ایک اہم حفاظتی ذریعہ ہے مثلا ۔

۔ دل کی بیماری والے لوگ ۔
۔ پھیپھڑوں کی دائمی بیماری مثال کے طور پر COPD ، جس کو ہسپتال میں داخلے کی ضرورت ہوتی ہے۔
۔ ذیابیطس کے مریض۔
۔ حمل کے دوران فلو ویکسینیشن حاملہ خواتین کو حمل کے دوران اور بعد میں فلو سے بچانے میں مدد کرتی ہے ۔

سائیڈ ایفیکٹس۔

فلو شاٹس سے جان لیوا الرجک رد عمل بہت کم ہوتے ہیں۔

سنگین الرجک ردعمل کی علامات میں سانس لینے میں دشواری،پیلا پن، کمزوری، تیز دل کی دھڑکن کا تیز ہوجانا، یا چکر آنا شامل ہو سکتے ہیں۔ یہ رد عمل ان لوگوں کو ہو سکتا ہے جنہیں ویکسین میں موجود کسی چیز سے الرجی ہو، جیسے انڈے کا پروٹین یا دیگر اجزاء۔

اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ فلو ویکسین کا تعلق Guillain-Barré syndrome سے ہو ۔

Address

Timurgara
18300

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr. Ashfaq ur Rehman Chest &TB Clinic posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Dr. Ashfaq ur Rehman Chest &TB Clinic:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram