Dr. Ashfaq ur Rehman Chest &TB Clinic

Dr. Ashfaq ur Rehman Chest &TB Clinic Chest/TB clinic at Timergara is a page created for the awareness of community about chest diseases

22/11/2025
مونٹی لیوکاسٹ دمہ کے طویل المدتی علاج میں استعمال ہونے والی ایک مؤثر اور محفوظ دوا ہے جس کی بنیاد کئی دہائیوں کی سائنسی ...
21/11/2025

مونٹی لیوکاسٹ دمہ کے طویل المدتی علاج میں استعمال ہونے والی ایک مؤثر اور محفوظ دوا ہے جس کی بنیاد کئی دہائیوں کی سائنسی تحقیق پر رکھی گئی ہے۔ یہ دوا ہوا کی نالیوں میں ہونے والی سوزش اور الرجک ردِعمل کو آہستہ آہستہ کم کرتی ہے، اس لیے اس کے اثرات فوری نہیں بلکہ چند ہفتوں کے باقاعدہ استعمال کے بعد نمایاں ہوتے ہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سے مریض اسے صرف اُس وقت استعمال کرتے ہیں جب انہیں دمہ کا اٹیک ہوتا ہے اور اٹیک کے ختم ہوتے ہی دوا چھوڑ دیتے ہیں، حالانکہ تحقیق واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ مونٹی لیوکاسٹ کا اکیوٹ اٹیک میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔ دمہ کے حملے کے دوران یہ دوا نہ تو سانس کھلانے میں مدد دیتی ہے اور نہ ہی فوری علامات کو کم کرتی ہے۔

اس لیے اس کا درست استعمال یہی ہے کہ اسے باقاعدگی سے طویل مدت تک لیا جائے تاکہ سانس کی نالیوں میں سوزش کم ہو اور آئندہ حملوں کا خطرہ گھٹے۔ جب مریض اسے مستقل مزاجی سے استعمال کرتے ہیں تو وہ نہ صرف اپنی روزمرہ سانس کی تکلیف میں نمایاں کمی محسوس کرتے ہیں بلکہ انہیں ایمرجنسی علاج کی ضرورت بھی کم پڑتی ہے۔

چنانچہ مونٹی لیوکاسٹ کو کبھی بھی صرف اٹیک کے وقت لینے والی دوا سمجھنے کے بجائے اسے دمہ کے بنیادی اور مستقل علاج کا حصہ بنانا چاہیے، کیونکہ اس کے حقیقی فوائد اسی صورت میں حاصل ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر اشفاق الرحمن

سچ کڑوا ضرور ہوتا ہے، مگر شفا اسی میں ہےاکثر مریض تلخ حقیقت سننے کے بجائے وقتی تسلی چاہتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر بلا لحاظ مریض ک...
31/10/2025

سچ کڑوا ضرور ہوتا ہے، مگر شفا اسی میں ہے

اکثر مریض تلخ حقیقت سننے کے بجائے وقتی تسلی چاہتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر بلا لحاظ مریض کی ذہنی استعداد کے، سارا سچ ایک ساتھ بیان کر دے تو بعض اوقات مریض گھبرا کر ڈاکٹر ہی بدل لیتے ہیں۔ پھر وہ ایسے لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو بظاہر خوش اخلاق اور نرم گفتار ہوتے ہیں، مگر حقیقت چھپا کر جھوٹی تسلیوں کے ذریعے مریض کو اپنی طرف راغب رکھتے ہیں اور مالی فائدہ اٹھاتے ہیں۔

ڈاکٹرز کو چاہیے کہ مریض کے ذہنی اور جذباتی ظرف کو مدنظر رکھتے ہوئے بات کریں، مگر حقیقت چھپائیں نہیں — بلکہ اسے اس انداز میں بیان کریں کہ مریض سچ کو سمجھ سکے، قبول کرے، اور جھوٹی تسلیوں کے جال میں نہ پھنسے۔

ڈاکٹر اشفاق الرحمن

18/10/2025

یورک ایسڈ (Uric Acid) خون میں پورین (Purines) نامی مرکبات کے ٹوٹنے سے بنتا ہے۔ یہ پورین زیادہ تر کچھ خاص خوراکوں میں پائے جاتے ہیں۔ جب یہ زیادہ مقدار میں جسم میں داخل ہوتے ہیں تو یورک ایسڈ کی سطح بڑھ جاتی ہے، جو آگے چل کر گاؤٹ (Gout) یا جوڑوں کے درد کا باعث بن سکتی ہے۔

ذیل میں وہ خوراکیں دی گئی ہیں جو یورک ایسڈ بڑھانے کا سبب بنتی ہیں

گوشت اور پروٹین والی اشیاء
• لال گوشت (بیف، بکرے کا گوشت)
• آنٹھوں والا گوشت (جگر، گردے، دل)
• مرغی کی چربی اور جلد
• مچھلیاں جیسے سَرڈین، اینچووی، ہیرنگ، میکریل، ٹراؤٹ، ٹونا
• جھینگے اور دیگر سی فوڈ

پینے والی اشیاء
• بیئر اور شراب (الکحل) — خاص طور پر بیئر میں پورین زیادہ ہوتی ہے
• چینی والے مشروبات (سافٹ ڈرنکس، کولڈ ڈرنکس)
جن میں ہائی فریکٹوز کارن سیرپ (High Fructose Corn Syrup) ہوتا ہے

کاربوہائیڈریٹ والی اشیاء
• سفید آٹا، میٹھے بسکٹ، کیک، پیٹیز
(یہ براہِ راست پورین نہیں رکھتے، مگر میٹابولزم کو متاثر کر کے یورک ایسڈ بڑھاتے ہیں)

دیگر اشیاء
• دالیں (خاص طور پر مسور، چنا، مٹر، لوبیا) — اعتدال میں کھائی جا سکتی ہیں
• پالک، مشروم، بند گوبھی، پھول گوبھی، asparagus
(ان میں پورین کم ہے مگر حساس افراد میں فرق ڈال سکتی ہیں)
• چکن یخنی یا ہڈیوں کا سوپ – پورین کی زیادہ مقدار رکھتا ہے

احتیاطی مشورے
• پانی زیادہ پئیں (روزانہ کم از کم 8–10 گلاس) تاکہ یورک ایسڈ پیشاب کے ذریعے خارج ہو سکے۔
• وزن کنٹرول میں رکھیں۔
• دودھ، دہی، سبزیاں، پھل (خاص طور پر چیری، سیب، کیلا) مفید ہیں۔
• چائے اور کافی اعتدال میں پینا نقصان دہ نہیں، بلکہ کچھ ریسرچ کے مطابق کافی تھوڑا سا فائدہ مند ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر اشفاق الرحمن

اگر آپ چاہیں تو والا ڈائٹ پلان بھی بنا سکتا ہوں۔
کیا آپ چاہیں گے کہ میں وہ تیار کر دوں؟

1. انفلوئنزا ویکسین ہر سال نیا کیوں بنتا ہے؟انفلوئنزا (Flu) وائرس کی سب سے بڑی خاصیت “میوٹیشن” یعنی بار بار جینیاتی تبدی...
12/10/2025

1. انفلوئنزا ویکسین ہر سال نیا کیوں بنتا ہے؟

انفلوئنزا (Flu) وائرس کی سب سے بڑی خاصیت “میوٹیشن” یعنی بار بار جینیاتی تبدیلی ہے۔
یہ وائرس مسلسل اپنی سطح پر موجود پروٹینز (خاص طور پر ہیم اگلوٹینن – H اور نیورامینڈیئز – N) بدلتا رہتا ہے۔

اس عمل کو دو نام دیے جاتے ہیں:
• Antigenic drift: چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں جو ہر سال آتی ہیں۔
• Antigenic shift: بڑی جینیاتی تبدیلیاں جو نئے وائرس اسٹین پیدا کرتی ہیں (مثلاً H1N1)۔

نتیجہ یہ کہ:

پچھلے سال کی ویکسین جو پرانے وائرس کے خلاف بنی تھی، نئے تبدیل شدہ وائرس پر مؤثر نہیں رہتی۔

اسی لیے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) ہر سال دنیا کے مختلف حصوں سے وائرس کے نمونے لے کر دیکھتی ہے کہ کون سا نیا اسٹین عام ہے، اور پھر اسی کے مطابق نئی سالانہ ویکسین تیار کی جاتی ہے۔

2. کیا پچھلے سال والی ویکسین مریض کو لگ سکتی ہے؟

عام طور پر نہیں۔
وجہ یہ ہے کہ وہ پرانے وائرس کے خلاف بنی ہوتی ہے اور نئے اسٹین پر ناکارہ ہو جاتی ہے۔
اگرچہ کچھ جزوی حفاظت ہو سکتی ہے، مگر اتنی نہیں کہ بیماری سے بچاؤ ہو سکے۔
اسی لیے ڈاکٹروں کی سفارش ہے کہ:

ہر سال نیا فلو شاٹ (Influenza vaccine) لیا جائے، خاص طور پر بزرگوں، بچوں اور کمزور قوتِ مدافعت والے افراد کے لئے ۔

ڈاکٹر اشفاق الرحمن

کارٹیجنر سینڈروم ایک نایاب مگر اہم موروثی بیماری ہے جو جسم کے اندر موجود باریک حرکت کرنے والے بال نما ذرات، جنہیں cilia ...
10/10/2025

کارٹیجنر سینڈروم ایک نایاب مگر اہم موروثی بیماری ہے جو جسم کے اندر موجود باریک حرکت کرنے والے بال نما ذرات، جنہیں cilia کہا جاتا ہے، کی ساختی خرابی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ cilia جسم کے کئی حصوں میں پائے جاتے ہیں، جیسے سانس کی نالی، کان، ناک، سینوسز، اور مردوں کے منی کے خلیوں میں موجود دم (s***m tail)۔ ان ذرات کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ خلیوں کے اندر یا سطح پر موجود مواد کو حرکت دیتے رہیں، تاکہ سانس کی نالی صاف رہے، اور نطفہ حرکت کر کے انڈے تک پہنچ سکے۔ جب ان cilia میں پیدائشی نقص ہو تو ان کی حرکت یا تو کمزور ہو جاتی ہے یا بالکل ختم ہو جاتی ہے، جس کے نتیجے میں مختلف جسمانی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

کارٹیجنر سینڈروم کو دراصل Primary Ciliary Dyskinesia (PCD) کی ایک خاص قسم سمجھا جاتا ہے، جس میں مریض کے اندر situs inversus نامی حالت بھی پائی جاتی ہے، یعنی جسم کے اندرونی اعضا اپنی عام جگہوں کے الٹ طرف واقع ہوتے ہیں، مثلاً دل دائیں طرف، جگر بائیں جانب۔ یہ تبدیلی عام طور پر خود نقصان دہ نہیں ہوتی، مگر cilia کی خرابی سانس کی نالی میں مسلسل رطوبت جمع ہونے، بار بار نزلہ، کھانسی، سینوس انفیکشن، اور کان کے مسائل کا باعث بنتی ہے۔

اس بیماری کا ایک نمایاں اثر مردوں میں بانجھ پن کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ نارمل حالات میں نطفہ (s***m) کے دم میں موجود cilia جیسے ڈھانچے حرکت پیدا کرتے ہیں جس سے نطفہ انڈے تک پہنچنے کے قابل ہوتا ہے۔ کارٹیجنر سینڈروم میں یہ حرکت ختم یا بے ترتیب ہو جاتی ہے، جس کے نتیجے میں مرد کے نطفے فعال نہیں رہتے، اور قدرتی طور پر حمل ٹھہرنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہو جاتے ہیں۔ اس حالت کو immotile s***matozoa syndrome بھی کہا جاتا ہے۔ بعض مریضوں میں نطفہ کی تعداد ٹھیک ہوتی ہے مگر وہ حرکت کرنے کے قابل نہیں ہوتے، جبکہ کچھ میں حرکت کے ساتھ ساختی خرابیاں بھی پائی جاتی ہیں۔

جدید میڈیکل سائنس نے اس بیماری کی تشخیص اور علاج کے میدان میں خاصی پیش رفت کی ہے۔ تشخیص کے لیے الیکٹران مائیکروسکوپی، جنٹک ٹیسٹنگ (DNA sequencing)، اور cilia motion analysis جیسے جدید طریقے استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ خرابی کس سطح پر ہے۔ بانجھ پن کے علاج کے لیے چونکہ جسمانی cilia کی کارکردگی بحال کرنا ممکن نہیں ہوتا، اس لیے جدید تولیدی ٹیکنالوجی سے مدد لی جاتی ہے۔ آج کل سب سے کامیاب طریقہ ICSI (Intracytoplasmic S***m Injection) ہے، جس میں مائیکروسکوپ کے ذریعے ایک ایک فعال نطفہ براہِ راست انڈے کے اندر داخل کیا جاتا ہے۔ اس طریقے نے کارٹیجنر سینڈروم کے شکار مردوں کو باپ بننے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اس کے علاوہ IVF (In Vitro Fertilization) جیسے طریقے بھی بعض صورتوں میں کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔

سانس اور کان کے مسائل کے علاج کے لیے باقاعدہ فزیوتھراپی، اینٹی بایوٹکس، اور نیبولائزیشن کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ سانس کی نالیوں میں جمع مواد خارج ہو سکے۔ مریضوں کو تمباکو نوشی اور آلودگی سے دور رہنے کی تاکید کی جاتی ہے، کیونکہ ان چیزوں سے سانس کی حالت مزید خراب ہو سکتی ہے۔

کارٹیجنر سینڈروم کا مکمل علاج فی الحال موجود نہیں، مگر جدید میڈیکل سائنس نے اس کے اثرات کو قابو میں رکھنے اور بانجھ پن کے مسئلے کو حل کرنے کے راستے کھول دیے ہیں۔ یہ بیماری ہمیں یاد دلاتی ہے کہ جینیاتی سطح پر معمولی سی تبدیلی بھی جسم کے پیچیدہ نظاموں کو متاثر کر سکتی ہے، اور ساتھ ہی یہ امید بھی دلاتی ہے کہ سائنس کے ذریعے انسان اپنی فطری کمزوریوں پر قابو پانے کے قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر اشفاق الرحمن

سموسہ چاٹ جنوبی ایشیا کی ان مقبول ڈشز میں سے ایک ہے جو ذائقے، خوشبو اور رنگوں کا حسین امتزاج پیش کرتی ہے۔ عام طور پر یہ ...
07/10/2025

سموسہ چاٹ جنوبی ایشیا کی ان مقبول ڈشز میں سے ایک ہے جو ذائقے، خوشبو اور رنگوں کا حسین امتزاج پیش کرتی ہے۔ عام طور پر یہ افطار، شام کی چائے یا دعوتوں میں پیش کی جاتی ہے۔ اس میں ٹوٹے ہوئے سموسوں کو چنے، دہی، املی کی چٹنی، ہری چٹنی، پیاز، ٹماٹر، مصالحوں اور بعض اوقات سیو یا پاپڑی کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔ یہی مختلف اجزاء مل کر اسے لذیذ مگر غذائی لحاظ سے قدرے بھاری بنا دیتے ہیں۔

ایک پلیٹ درمیانی سائز کی سموسہ چاٹ میں اوسطاً 400 سے 600 کیلوریز تک توانائی موجود ہوتی ہے، اور اگر دہی زیادہ ڈالا جائے یا تیل میں تلے ہوئے سموسے استعمال کیے جائیں تو یہ مقدار 700 کیلوریز سے بھی تجاوز کرسکتی ہے۔ اس میں کاربوہائیڈریٹس زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ سموسے اور چنے دونوں نشاستہ دار غذائیں ہیں۔ چنے میں اگرچہ فائبر اور پروٹین موجود ہوتے ہیں جو پیٹ بھرنے میں مدد دیتے ہیں، مگر سموسے کے تیل اور مصالحے اس کے غذائی توازن کو بگاڑ دیتے ہیں۔

سموسہ چاٹ میں موجود دہی ایک مثبت عنصر ہے کیونکہ وہ پروبائیوٹک، کیلشیم اور پروٹین فراہم کرتا ہے۔ املی اور ہری چٹنی نظامِ ہضم کو بہتر بناتی ہیں اور چنے کا فائبر شوگر کے جذب کو کچھ حد تک سست کر دیتا ہے۔ تاہم تلے ہوئے سموسے اور تیز مصالحوں کے باعث یہ ڈش چربی، نمک اور کیلوریز میں بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔

وزن کم کرنے والے افراد کے لیے سموسہ چاٹ ایک پرکشش مگر خطرناک انتخاب ہے۔ اس میں موجود زیادہ کیلوریز اور چکنائی وزن گھٹانے کے عمل کو متاثر کر سکتی ہے۔ ایک پلیٹ چاٹ بعض اوقات پورے دن کے کھانے جتنی کیلوریز مہیا کر دیتی ہے، خاص طور پر اگر اسے چٹنیوں اور میٹھے دہی کے ساتھ کھایا جائے۔ وزن کم کرنے کے خواہشمند افراد اگر کبھی اس کا ذائقہ لینا چاہیں تو بہتر ہے کہ بیک کیے ہوئے سموسے استعمال کریں، دہی کم چکنائی والا لیں، اور چینی یا میٹھے اجزاء شامل نہ کریں۔

ذیابطیس کے مریضوں کے لیے بھی سموسہ چاٹ احتیاط طلب ہے۔ اس میں موجود آلو اور تلا ہوا آٹا شوگر لیول کو تیزی سے بڑھا سکتا ہے، جبکہ چٹنیوں میں موجود املی یا چینی مزید گلوکوز میں اضافہ کرتی ہے۔ اگر شوگر کے مریض کو کبھی کبھار کھانے کا دل ہو تو وہ کم تیل والے سموسے، نمکین دہی، اور زیادہ چنے والی چاٹ کا انتخاب کریں تاکہ فائبر شوگر کے اثر کو کچھ حد تک متوازن رکھے۔

مجموعی طور پر سموسہ چاٹ ذائقے اور خوشبو کے لحاظ سے ایک دلکش اور مزے دار پکوان ہے، مگر اسے روزمرہ کا حصہ بنانا صحت کے لیے موزوں نہیں۔ اگر اعتدال سے، کم تیل اور کم چٹنی کے ساتھ، بیک کیے ہوئے اجزاء سے تیار کی جائے تو یہ نسبتاً محفوظ اور ہلکی غذا بن سکتی ہے۔ بصورتِ دیگر یہ نہ صرف وزن بڑھانے بلکہ بلڈ شوگر اور ہاضمے کے مسائل کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

سموسہ برصغیر کا ایک نہایت مقبول اسنیک ہے جو عام طور پر چائے کے ساتھ، افطار میں یا کسی تقریب میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی خ...
07/10/2025

سموسہ برصغیر کا ایک نہایت مقبول اسنیک ہے جو عام طور پر چائے کے ساتھ، افطار میں یا کسی تقریب میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی خوشبودار بھرائی، کرسپی تہہ اور مصالحے دار ذائقہ ہر کسی کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے، مگر غذائیت اور صحت کے نقطۂ نظر سے اس کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔

ایک عام درمیانے سائز کے آلو والے سموسے میں اوسطاً 200 سے 300 کیلوریز تک توانائی ہوتی ہے۔ اگر اس میں قیمہ یا مرغی بھری گئی ہو تو یہ مقدار 350 کیلوریز تک پہنچ سکتی ہے۔ سموسے کی کیلوریز زیادہ تر اس کے آٹے اور تیل سے آتی ہیں، کیونکہ اسے عموماً گہرے تیل میں تلا جاتا ہے۔ ایک سموسے میں چربی کی مقدار 15 سے 20 گرام تک ہوسکتی ہے، جن میں زیادہ تر سیر شدہ (saturated) چکنائیاں شامل ہوتی ہیں۔ کاربوہائیڈریٹ کی مقدار 25 سے 35 گرام کے درمیان اور پروٹین عموماً 4 سے 8 گرام کے قریب ہوتی ہے۔ اگر آلو شامل ہوں تو نشاستے کی مقدار مزید بڑھ جاتی ہے، جب کہ قیمہ یا مرغی والا سموسہ نسبتاً زیادہ پروٹین فراہم کرتا ہے۔

غذائیت کے لحاظ سے سموسہ فوری توانائی دینے والا کھانا ہے کیونکہ اس میں چکنائی اور کاربوہائیڈریٹ دونوں وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔ مگر یہی چیز اسے وزن کم کرنے والوں کے لیے ایک چیلنج بناتی ہے۔ جب جسم میں ضرورت سے زیادہ کیلوریز جمع ہوتی ہیں تو وہ چربی کی شکل میں ذخیرہ ہوجاتی ہیں، اور چونکہ سموسہ تیل میں تلا ہوا ہوتا ہے، اس لیے اس کی حرارے (calories) عام کھانوں سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص وزن کم کرنے کی کوشش کر رہا ہو تو ایک سموسہ ہی اس کے روزانہ کے کیلوری بجٹ کا بڑا حصہ لے لیتا ہے، اور مسلسل استعمال وزن گھٹانے کے عمل کو سست یا بند کرسکتا ہے۔

شوگر یا ذیابطیس کے مریضوں کے لیے بھی سموسہ احتیاط کا متقاضی ہے۔ اس میں موجود آٹا اور آلو تیزی سے گلوکوز میں تبدیل ہوتے ہیں جس سے بلڈ شوگر اچانک بڑھ سکتی ہے۔ تلے ہوئے تیل میں بننے والی سیر شدہ چکنائی انسولین کے عمل میں بھی مداخلت کرسکتی ہے، جو ذیابطیس کے مریضوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اگر شوگر کے مریض کو کبھی کبھار کھانے کا دل ہو تو بہتر ہے کہ وہ ایئر فرائیر یا بیک کیے ہوئے سموسے کا انتخاب کرے، جس میں تیل کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہو۔

مجموعی طور پر سموسہ ذائقے کے لحاظ سے لذیذ ضرور ہے مگر اسے روزمرہ غذا کا حصہ نہیں بنانا چاہیے۔ اعتدال سے کبھی کبھار کھا لیا جائے تو نقصان نہیں، مگر باقاعدہ استعمال وزن، بلڈ شوگر اور دل کی صحت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص صحت مند متبادل چاہے تو وہ بیک کیا ہوا سموسہ، دال یا سبزی کی ہلکی بھرائی، یا ہول ویٹ آٹے سے بنا ورژن اختیار کرسکتا ہے جو ذائقہ برقرار رکھتے ہوئے جسم پر بوجھ نہیں ڈالتا۔

Address

Timurgara
18300

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr. Ashfaq ur Rehman Chest &TB Clinic posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Dr. Ashfaq ur Rehman Chest &TB Clinic:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram