07/10/2025
ہوتے ہوتے زخم آخر مندمل ہو جائیں گے
مت کریدو داغ ورنہ مستقل ہو جائیں گے
ہر نئی آفت ہماری شامتِ اعمال ہے
ہم بدل جائیں تو موسم معتدل ہو جائیں گے
اس لیے ڈرتا ہوں دل کی بات کہنے سے کہ آپ
سچ سنیں گے اور فوراً مشتعل ہو جائیں گے
آپ سے نظریں ہٹیں تو کچھ کہوں ورنہ مرے
سارے نغمے حسن ہی پر مشتمل ہو جائیں گے
کچھ وسائل تو مری نسلوں کی خاطر چھوڑ دیں
آپ کے بچے تو یورپ منتقل ہو جائیں گے
شہر کے معمار سُن! کب تک ہمارے جھونپڑے
شاہ کی بارہ دری سے متّصل ہو جائیں گے
خود ہنسیں گے دیکھنا اپنی تباہی دیکھ کر
دھیرے دھیرے لوگ اتنے سنگدل ہو جائیں گے
ڈاکٹر احمد خلیل