AL-Farooq Homoeopathic Health Care Clinic Toba Tek Singh

AL-Farooq Homoeopathic Health Care Clinic Toba Tek Singh We offers full-service online consultation in classical homeopathy. Treatment encompasses regular ap

01/09/2024

ہفتے کے آخری ایام میں بھرپور نیند امراضِ قلب کے خطرات کم کرسکتی ہے.

ایک نئی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ جو لوگ ہفتے کے آخر میں بھرپور نیند لیتے ہیں ان میں دل کی بیماری کے خطرات 20 فیصد تک کم ہو سکتے ہیں۔

برطانیہ سے تعلق رکھنے والے 90 ہزار سے زائد افراد کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہفتے کے دوران نیند کی کمی کی تلافی ہفتے کے آخر میں اضافی اسنوز ٹائم کے ساتھ کی جاسکتی ہے جس سے نیند کی کمی کے منفی اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے۔

یورپین سوسائٹی آف کارڈیالوجی کانگریس 2024 میں پیش کیے جانے والے نتائج سے یہ بات سامنے آئی کہ نیند سے محروم افراد جو ہفتے کے آخری دنوں میں زیادہ نیند لیتے ہیں ان میں دل کی بیماری کا خطرہ ان لوگوں کے مقابلے میں 20 فی صد کم ہوتا ہے جو ہفتے کے آخر میں آنکھیں بند نہیں کرتے تھے یا اس سے بھی کم سوتے تھے۔
چین کے شہر بیجنگ میں واقع فوائی ہسپتال کے نیشنل سینٹر فار کارڈیو ویسکیولر ڈیزیز سے تعلق رکھنے والے تحقیق کے مصنف یانجن سونگ کا کہنا تھا کہ مناسب نیند دل کی بیماری کے کم خطرے سے منسلک ہے۔یہ تعلق ان افراد میں اور بھی واضح ہو جاتا ہے جو ہفتے کے دنوں میں باقاعدگی سے ناکافی نیند لیتے ہیں۔

"آبی آلودگی سے سبزیاں اور پھل بھی بیماری پھیلانے لگے"ویسے تو مملکت پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے لیکن ناقص پالی...
01/03/2024

"آبی آلودگی سے سبزیاں اور پھل بھی بیماری پھیلانے لگے"

ویسے تو مملکت پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے لیکن ناقص پالیسیوں کے باعث آج ہم گندم اور چینی جیسی بنیادی جنس درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔
اس صورت حال کے پیش نظر ہم غذائی تحفظ و غذائی خود کفالت کی منزل پاسکتے ہیں؟ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ اکثر ترقی پذیر ممالک نے بھی غذائی تحفظ و خود کفالت کے حوالے سے تیاریاں کر رکھی ہیں۔ ان ممالک میں اس مقصد کے لیے زیادہ سے زیادہ پیداواری صلاحیت حاصل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے لیکن ہمارے ہاں اس قسم کی کوششیں نظر نہیں آ رہیں۔
اداروں کی سطح پر منصوبہ بندیاں توبہت سی ہوتی ہیں لیکن ان پرعمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ایک شخص سرکاری ملازمت کے حصول کے لیے ہرجائز و ناجائز حربہ استعمال کرتا ہے لیکن ملازمت ملنے کے بعد اپنے فرائض سے پہلو تہی برتنااپنا فریضہ بھی سمجھتا ہے۔
ایسے میں کیوں کر بنیادی مسائل کاخاتمہ اورعوام کوزندگی کی بنیادی سہولیات اور آسانیاں مل سکتی ہیں۔ آج کل ہم ایسے ہی ایک خطرناک مسئلے سے دوچار ہیں، یعنی حفظان صحت کے اصولوں کے برعکس زہرآلود پانی سے سبزیوں اورپھلوں کی کاشت۔ باالفاظ دیگر ہمیں ناقص اورغیرمعیاری غذاکا سامناہے ،کیوں کہ اب لوگ زیادہ ترسبزی خوری کے باوجود بیماریوں کاشکارہونے لگے ہیں۔
اس ضمن میں حالیہ ایک رپورٹ میں انکشاف ہواہے کہ پاکستان ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو بڑے پیمانے پرشہروں اورصنعتوں کاکیمیکل شدہ پانی زراعت میں استعمال کر رہا ہے۔ ان میں پیاز، بینگن، پالک، پودینہ، بھنڈی، آلو، شلجم، گوبھی، کدو، کریلا، توری، کچالو، گاجر، مولی، ٹماٹر جب کہ فصلوں میںگندم، کماد اور مکئی بطورخاص شامل ہیں۔
اسی طرح پینے کا پانی بڑے شہروں میں بھی صاف نہیں ملتا، اس میں بھی سنکھیا اورآرسینک زہرکی آمیزش اورسیوریج کی ملاوٹ کے ثبوت ملے ہیں۔ شاید انہی وجوہات کی بنا پرپاکستان میں گردوں کے مریضوں کی تعداد تقریباً دوکروڑ، کینسر کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑسترلاکھ، ہیپاٹائٹس میں مبتلا ڈھائی کروڑ اوردل کی بیماریوں میں مبتلاافرادکی تعداد چار کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔
معدے، سینے، ہڈیوں کے امراض، تپ دق، شوگر، بلڈ پریشر اوردماغی امراض میں مبتلا افرادکی تعدادکا یہاں ذکراس لیے نہیں کیاگیاکہ ہرتیسرا، چوتھا، پانچواں شخص شوگر، بلڈپریشر اور جوڑوں کے درد، بینائی اور سماعت میں کمی کا مریض بن چکا ہے۔ گویا فوڈ اتھارٹی اورمتعلقہ انتظامی اداروں کی لاپرواہی سے معاملات اس قدر بے قابوہوتے جا رہے ہیں کہ ہرگھرکے دروازے پرکوئی نہ کوئی موذی بیماری دستک دے رہی ہے۔
کیا بازارمیں جگہ جگہ بکنے والے برائلرگوشت کی کوالٹی اورخوراک کو چیک کرنا فوڈ اتھارٹی کی ذمہ داری نہیں؟ کولڈ ڈرنکس جسے ہرچھوٹا بڑا شوق سے پیتا ہے بلکہ مہمانوں کی خاطر مدارت کے نام پر انہیں پلایاجاتا ہے، اگر اس میں پیسٹی سائیڈ یعنی کھاد اورکوئی زہریلاکیمیکل ڈالاجا رہا ہے تو ایسی کولڈ ڈرنکس بنانے والی فیکٹریوںکوبندکیوں نہیں کردیا جاتا؟ زہریلے کیمیکل ملے ڈبہ بند اورکھلے دودھ کی فروخت کی روک تھام کیوں نہیں کی جاتی؟
سیوریج ملے اورفیکٹریوں کے آلودہ پانی سے سبزیاں اگانے پر پابندی لگانی چاہیے۔ نہروں اوردریاؤں میں زہریلا پانی صاف کیے بغیر نہ ڈالا جائے، کیوں کہ یہ وہ عوامل ہیں جن کے سبب آج ایک عام پاکستانی جوفخریہ خودکوسبزی خورکہلاتاہے وہ مختلف قسم کی بیماریوں کے شکنجے میں جکڑتا جا رہا ہے۔
اسی صورت حال کی بازگشت خیبرپختون خوا کے سابقہ ایوان میں بھی سنائی دی جب صوبائی حکومت کی جانب سے سبزیوں اور پھلوں کی کاشت کے لیے آلودہ اور مضر صحت پانی کے استعمال کا اسمبلی میں اعتراف کیاگیا۔ اس ضمن میں گزشتہ صوبائی اسمبلی میں ایم ایم اے سے تعلق رکھنے والی خاتون رکن ریحانہ اسماعیل نے توجہ دلاؤنوٹس پیش کرتے ہوئے کہا کہ پشاوراورگرد و نواح میں موسمی سبزیوں اور پھلوں کے باغات کو سیراب کرنے کے لیے آلودہ اورمضرصحت نہری اورندی نالیوں کاپانی استعمال کیا جاتا ہے، جس کے باعث سنگین نوعیت کی جلدی اوردیگر بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔

مختلف لیبارٹریوں کی رپورٹس میں واضح کیاگیا ہے کہ صوبہ کے بیشتر شہروں اورخصوصاً پشاور میں سبزیاں 90 فی صدآلودہ اور مضرصحت ہیں، جس پر خاتون رکن کوجواب دیتے ہوئے سابق صوبائی وزیر برائے سماجی بہبود ہشام انعام اللہ نے کہا کہ یہ ہم سب کے لیے خطرناک صورت حال ہے۔
ان کے مطابق حکام بالا نے اس پرتوجہ دی ہے، مختلف اضلاع میں ٹیسٹ کیے گئے جہاں مضرصحت پانی کا استعمال ہو رہا ہے جس کی روک تھام کے لیے محکمہ زراعت نے پالیسی مرتب کرلی ہے۔ اس وقت ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے سب محکمے مل کر مشترکہ حکمت عملی بنارہے ہیں، جس پرعمل درآمدکرنے سے اس خطرناک صورت حال پر جلد قابو پایا جائے گا۔
جامعہ پشاوراورامریکہ کی ایک یونی ورسٹی نے وادی سوات اور وادی پشاورمیں دریاؤں اور پینے کے پانی کا تحقیقی اورتجزیاتی کام مکمل کرکے نتائج مرتب کر لیے جو عملی اقدامات کے لیے حکومت کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ علوم ماحولیات کی مایہ نازمحقق اورایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹربشریٰ خان کی زیرنگرانی آبی آلودگی کے اس تحقیقی اورتجزیاتی منصوبے میں پروفیسر ڈاکٹرحزب اللہ خان اور زرعی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹرمحمد اسحاق میاں بھی بطورمعاونین شامل رہے۔
ڈاکٹربشریٰ خان کا تعلق ضلع صوابی کے ایک تاریخی علم دوست خاندان سے ہے، انہوں نے پرڈویونی ورسٹی امریکہ سے علوم ماحولیات میں فل برائٹ سکالرشپ پر ڈاکٹریٹ کے ساتھ ساتھ مشی گن اسٹیٹ یونی ورسٹی اورپرڈویونی ورسٹی سے دومرتبہ پوسٹ ڈاکٹریٹ کااعزازحاصل کیا ہے۔
اسی طرح انہیں سال 2016ء میں اعلیٰ تعلیمی کمیش پاکستان کی طرف سے بیسٹ ٹیچرایوارڈ بھی دیاگیا۔ ڈاکٹر بشریٰ خان کی زیرنگرانی شعبہ انوائرمینٹل سائنسزکے دس ریسرچ سکالرز نے پی ایچ ڈی کی تحقیق جب کہ چھ ایم فل کی تحقیق مکمل کرکے فارغ ہوچکے ہیں۔ انکے ایک سوپچاس ریسرچ پیپرز قومی اوربین الاقوامی سائنس جرنلز میں شائع ہوچکے ہیں۔ وہ واٹرسپلائی اینڈ سینی ٹیشن سروسز پشاورکے بورڈ آف ڈائریکٹرزکی ممبر اورخواتین ریسرچرزمیں صف اول کی ریسرچر ہیں۔

وادی سوات اور پشاور میں آبی آلودگی کے منصوبے کی تکمیل کے حوالے سے پراجیکٹ، اس پرعمل درآمد، تجزیاتی عمل اورنتائج کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے ڈاکٹربشریٰ خان نے بتایا: ’’آبی آلودگی کی تحقیق کاکام اعلیٰ تعلیمی کمیشن پاکستان اورامریکہ کے یوایس ایڈ پروگرام کامشترکہ منصوبہ تھاجس پرپشاوریونی ورسٹی اور امریکہ کی پرڈو یونیورسٹی نے مشترکہ طورپرکام کیا۔ میں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ تین سالہ پراجیکٹ پرعمل درآمدکے دوران دریائے سوات کے پانی کا بحرین سے لے کرچارسدہ تک اوردریائے کابل کا ورسک سے لے کرخیرآباد اٹک تک سروے، ٹسٹنگ اورتجزیہ کیا۔
اگست 2020ء میں مکمل ہونے والی اس تحقیق اورتجزیاتی منصوبے کے آبی آلودگی کے حوالے سے نہایت حیران کن نتائج برآمد ہوئے۔ اس پراجیکٹ کے تعاون میں تین پی ایچ ڈی اورچارایم فل سکالرزنے اپنی تحقیق بھی مکمل کرلی، اس طرح معاون امریکی یونیورسٹی آف پرڈومیں دوسکالرز نے اس پراجیکٹ میں ڈاکٹریٹ کرلی۔‘‘

ڈاکٹر بشریٰ نے مزید بتایاکہ پراجیکٹ کے تحت شعبہ انوائرمنٹل سائنسزکی دو پی ایچ ڈی سکالرصباشوکت اورنیلم اسد تحقیق کی غرض سے چھ ماہ کے لیے پرڈویونیورسٹی امریکہ جائیں گی۔
اس تحقیقاتی منصوبے کے تحت پرڈویونی ورسٹی کی ایک اورسکالر ربیکالکسن کی ڈاکٹریٹ کی تحقیق کی نگرانی میں انہوں نے معاون سپروائزرکی ذمہ داری انجام دی جوکسی پاکستانی پروفیسرکے لیے یہ اولین اعزازہے۔ انہوں نے بتایاکہ پراجیکٹ کے تحت شعبہ علوم ماحولیات پشاوریونی ورسٹی میں جدید ترین مشینری اورآلات سے لیس واٹرکوالٹی لیبز قائم کی گئیں جوخیبر پختون خواکی کسی یونی ورسٹی یا ادارے میں قائم ہونے والی پہلی لیبارٹری ہے۔ منصوبے میں شامل پرڈویونی ورسٹی کے تعاون سے آبی علوم کے امریکی ماہرین کی ٹیم نے جامعہ پشاور کادورہ کرکے یہاں پرمنصوبے میں شامل ریسرچ سکالرزطلبا و طالبات کوتربیت فراہم کی۔
ڈاکٹر بشریٰ خان نے کہاکہ دریائے سوات اوردریائے کابل میں آبی آلودگی کا سروے، تحقیق اورسائنٹیفک تجزیے سے حیران کن نتائج سامنے آئے۔ ان دریاؤں کے پانی، مچھلیوں اورکیچڑ کا موسم سرما اورگرما میں دومرتبہ تجزیہ کیاگیا اوریہ معلوم کرنے کی بھی کامیاب کوشش کی گئی کہ آیا موسمی تغیرکے اثرات آبی حیات پرکس حد تک اثر اندازہوئے۔
دریائے سوات کے بارہ اور دریائے کابل کے پندرہ مقامات پرپانی، مچھلیوں اور کیچڑ کے حاصل کردہ نمونوں کو سائنٹیفک تجزیے کے لیے امریکہ کی پرڈویونی ورسٹی کی لیبارٹری میں بھجوایاگیا جس کایہ حیران کن نتیجہ سامنے آیاکہ ان دونوں دریاؤں کاپانی نہ صرف انسانی بلکہ آبی حیات کے لیے بھی مضرصحت ہے۔ دونوں دریاؤں کے پانی میں شامل زہریلے مادے، پانی کی ترسیل یا آب پاشی کے سسٹم کے ذریعے سبزیوں، پھلوں اوردوسری غذائی اجناس میں منتقل ہوکر مختلف بیماریوں کاسبب بنتے ہیں۔ ان زہریلے مادوں میں کیڑے مارادویات اورتحلیل ہونے والے پلاسٹک کے مضراثرات سب سے زیادہ خطرناک ہیں۔
انہوں نے بتایاکہ دریائے سوات میں مینگورہ، بریکوٹ، لنڈاکی اورچکدرہ کے مقام پر دریا کا پانی سب سے زیادہ آلودہ ہے جب کہ دریائے کابل میں مذکورہ زہریلے مواد اس سے بھی زیادہ پائے جائے ہیں۔ یہاں پر اکبرپورہ، پشتون گڑھی، ڈھیری زرداد، نوشہرہ اورجہانگیرہ کے مقامات سے لیے گئے نمونوں کے سائنٹیفک تجزیے سے معلوم ہواکہ یہاں پر زہریلے مادوں کی مقداردریائے سوات سے کہیں زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ زہریلے مادے پانی کی تہہ تک سرایت کرچکے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ تین سالہ عرصہ کے دوران اس پراجیکٹ پرشعبہ انوائرمنٹل سائنسز جامعہ پشاور اور پرڈو یونی ورسٹی میں بیک وقت اوریکساں عملدرآمد کیاگیا، منصوبے کے مالی اخراجات میں سے پندرہ فی صد پشاوریونی ورسٹی کے آفس آف دی ریسرچ اینوونیشن اینڈ کمرشلائزیشن کوبھی دیاگیا۔
ڈاکٹربشریٰ خان نے بتایاکہ سوات کے کاشت کاروں کے مطابق ان کے باغات اور فصلوں پر سال میں کم ازکم آٹھ مرتبہ کیڑے مار ادویات کاسپرے کیا جاتا ہے اورپھریہ زہریلے مواد بارشوں اورآب پاشی کے ذریعے دریامیں منتقل ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ دریائے سوات اوردریائے کابل کی مچھلیوں کاتجزیہ پرڈویونی ورسٹی کی لیبارٹریوں میںکیاگیاجس سے یہ نتیجہ بھی سامنے آیاکہ زہریلے مواد آبی حیات کی صحت اورجسامت کے ساتھ ساتھ ان کی جنس کو بھی بری طرح متاثرکررہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ یہ امر ایک المیہ سے کم نہیں کہ ہمارے خیبرپختون خوا میں پانی کا معیار جانچنے کاکوئی انتظام نہیں۔ پشاورمیں پینے کا پانی آلودہ ترین ہوچکاہے، اس میں تحلیل شدہ زہریلے پلاسٹک بھی شامل ہیں جوخیرآباد کے مقام پردریائے سندھ اوردریائے سوات میں شامل ہوجاتے ہیں اور یہی تحلیل ہونے والے زہریلے پلاسٹکی مواد کینسرکی مختلف اقسام کابھی سبب بن جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایاکہ آبی آلودگی کے منصوبے کے نتائج پر مشتمل رپورٹ متعلقہ حکومتی اداروں کو فراہم کی گئی ہے۔ ساتھ ہی پشاورکے ہسپتالوں اوردوسرے مقامات کے فضلات کوتوانائی میں تبدیل کرنے کے منصوبے پربھی تجزیاتی کام کا آغاز ہو چکا ہے، جس میں وہ خود بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہاکہ پشاورواٹر سپلائی اینڈ سینی ٹیشن سروسز کے بورڈ آف ڈائریکٹرزکے سامنے یہ بات رکھ دی گئی ہے کہ جس پانی سے آبی حیات کی بقاخطرے میں ہو وہ انسان کے لیے کس حدتک مضرصحت ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ روز افزوں بڑھتی ہوئی آبادی، ماحولیاتی، آبی آلودگی اور موسمی تغیرات موجودہ دورکاایک بڑاچیلنج ہے مگر اس کے باوجود تحقیقاتی اورتجزیاتی کام اوراس کے نتائج کے مطابق عملدرآمد کا فقدان ہے۔
جامعات کوتحقیق کے لیے جوگرانٹ دی جارہی تھی وہ اب ایک عرصہ سے برائے نام رہ گئی ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک کی جامعات اورتحقیقی اداروں سے مل کام کرنے کوبھی اہمیت نہیں دی جارہی لہٰذا ایسے میں مختلف امراض اورآفات سے ہماری اجتماعی معاشرتی زندگی کا ہر پہلو متاثر ہوگا جو موجودہ دورکا سب سے بڑا المیہ ہے۔
اس صورت حال پربات کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز کاکہنا ہے کہ ہمیں ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عام لوگوں کوآگاہی دینے سے متعلق اپناکردار اداکرنا چاہیے۔
ماحول سے متعلق قرآن اوراحادیث میں بیشترمقامات پر تذکرہ موجود ہے جس میں لوگوں کوماحول کی حفاظت اور قدر کرنے کا سبق دیا گیا ہے۔ اسی تناظر میں بات کرتے ہوئے جامعہ پشاورکے انوائرمینٹل سائنسزڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر آصف خان نے بتایاکہ پریشان کن طور پر پاکستان اس وقت عالمی رینکنگ میں آب وہواکی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جودوسال قبل تک ساتویں نمبر پر تھا۔

حکومت نے اس صورتحال کے تدارک کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں لیکن اس کے باوجود اگرمزید اقدامات اورعام لوگوں میں آگاہی پیدا نہ کی گئی تو سال 2040 تک پاکستان کے 80 فی صد گلئیشیرختم ہونے کاخدشہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ دنیا بھرکا درجہ حرارت 1850کے بعد سے اب تک ایک فی صد بڑھ چکا ہے جوباعث تشویش ہے جسے مزید بڑھنے سے قبل اقدامات کرنے ہوںگے۔

یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ملک بھر اور خصوصاً خیبرپختون خوامیں آب پاشی نہروں کے کناروں بنے گھروں کے واش رومزاورگٹروں کازہریلا،کیمیکل ملا اورگدلاپانی انہی نہروں میں گرا دیا جا رہا ہے جو فصلوں اور خصوصاً سبزیوںمیں منتقل ہوکر اسے زہرآلود بنارہاہے۔
اگر خیبرپختون خوا کی بات کی جائے تو آج سے دس پندرہ سال قبل انہی نہروں کا پانی لوگ باقاعدہ پینے کے لیے استعمال کیاکرتے تھے، جانوروں کو پلاتے جب کہ یہ پانی اتنا شفاف اور صاف ہوتاکہ دیکھنے پرنہرکی تہہ تک نظر آتی تھی لیکن آج کل یہ معاملہ بالکل الٹ ہے۔ یہ پانی مختلف کثافتوں اور زہریلے مواد پر مشتمل ہوتا ہے کیوں کہ لوگ گٹروں کی صفائی کیلئے تیزاب ملا کیمیاوی مواد دھڑا دھڑ استعمال کررہے ہیں جس سے جلدی امراض تیزی کے ساتھ پھیل رہے ہیں۔

اس حوالے سے کسانوں کاکہناہے کہ جب ہم کھیتوں کوسیراب کرنے کے لیے آب پاشی کرتے ہیں توپانی میں اترتے ہی خطرناک قسم کی خارش لاحق ہوجاتی ہے جوکئی دنوں تک جاری رہتی ہے اورہمیں دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ یہ کوئی خطرناک صورت حال اختیار نہ کرجائے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم نے اس حوالے سے متعلقہ محکمہ کوشکایات بھی درج کرائیں لیکن تاحال کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ ہمیں خدشہ ہے کہ یہ زہریلا پانی ہماری زندگیوں کوہی ختم نہ کردے۔
ماہر امراض جلد ڈاکٹرمحمد سنان نے اس حوالے سے بتایاکہ انسانی جسم کواس کی ساخت دینے میں ہماری جلد اہم کردار ادا کرتی ہے۔ انسانی جلد تین تہوں پر مشتمل ہوتی ہے اورسب سے بیرونی تہہ غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ ہماری جلدبہت سی چیزوں سے مل کربنتی ہے جن میں پانی،پروٹین اورمعدنیات وغیرہ شامل ہیں۔

ہمارے معاشرے میں ناقص غذا اورآلودہ پانی بہت سے جلدی امراض کاباعث بن رہا ہے۔ جس میں سورائسس، ایگزیما، خارش،گرمی دانے وغیرہ شامل ہیں۔ حالیہ دور میں ناقص غذا اورآلودہ پانی اس کی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں، یہ امراض جسم کے ایک حصے سے شروع ہو کر پورے جسم کواپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایاکہ خصوصاً گرمی کے موسم میں فضا میں رطوبت کی زیادتی کی وجہ سے مضر اور خطرناک جراثیم، بیکٹیریاکی نشوونمامیں بڑی تیزی آجاتی ہے جس کی وجہ سے بیماریاں نمایاں طورپرسراٹھالیتی ہیں۔ جگراوردوسرے اعضاء میں موجود زہریلے مادے آسانی سے خون میں گردش کرنا شروع کردیتے ہیں جس کی وجہ سے بچوں بڑوں میں یہ گندے مادے پھوڑے پھنسیوں کی صورت میں نکلنا شروع ہوجاتے ہیں۔

ہمارے ملک میں گندگی اورآلودہ ماحول کی وجہ سے جلد کے مساموں میں انفیکشن ہوجاتا ہے، جلد پر ہمیشہ کے لیے نشانات پڑجاتے ہیں، ایسے میں آب پاشی کی نہروں میںگٹروں کا گندا اور زہریلا پانی انسانی صحت کے لیے انتہائی مضرہوسکتاہے۔

آلودہ پانی میں موجود تیزابی اورکیمیاوی اجزاء انسانی جلد پرسرعت کے ساتھ حملہ آور ہوتے ہیں جس سے ایگزیما، سورائسس سمیت خطرناک قسم کی جلدی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔ ان کاکہنا تھاکہ چوں کہ اس ضمن میں ابھی باقاعدہ تحقیق توسامنے نہیں لیکن یہ حکومت کافرض بنتاہے کہ اس کے تدارک کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے تاکہ اس زہریلے اور مضر صحت پانی سے پھیلنے والی جلدی اوراندرونی بیماریوں کاسدباب کیاجاسکے۔

28/02/2024
2050 تک فالج سے اموات میں 50 فی صد تک اضافہ متوقعلندن: ایک تازہ ترین تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 2050 تک عالمی سطح پر فالج...
12/02/2024

2050 تک فالج سے اموات میں 50 فی صد تک اضافہ متوقع

لندن: ایک تازہ ترین تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 2050 تک عالمی سطح پر فالج سے ہونے والی اموات کی شرح 50 فی صد تک بڑھ سکتی ہے۔

ورلڈ اسٹروک آرگنائزیشن اور لانسیٹ نیورولوجی کمیشن اسٹروک کولیبریشن گروپ کے مطابق آبادی اور لوگوں کے بوڑھے ہونے کی وجہ سے فالج کے سبب ہونے والی تعداد 66 لاکھ (بمطابق 2020) سے بڑھ کر 2050 تک 97 لاکھ تک بڑھ سکتی ہے۔

این ایچ ایس کی ویب سائٹ کے مطابق کچھ ناقابل تغیر عوامل کی وجہ سے فالج سے بچنا ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا۔ ان عوامل میں عمر شامل ہے (زیادہ تر فالج کے واقعات 60 اور 70 کی دہائی میں پیش آتے ہیں) البتہ اس سے کوئی بھی شخص متاثر ہوسکتا ہے (بوجہ جینیات، خاندانی ہسٹری اور قومیت کے)۔ اس کے علاوہ صحت کے دیگر عوامل کا بھی فالج سے تعلق ہو سکتا ہے۔
تاہم، اعداد و شمار کے مطابق ایسی کچھ چیز ہیں جن کو اپناتے ہوئے ہم اس کیفیت کو کم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں بالخصوص بلند فشار خون، ٹائپ 2 ذیا بیطس اور بلند کولیسٹرول کو قابو کرتے ہوئے۔
لندن جنرل پریکٹس کی ڈاکٹر اینجلا رائے کے مطابق فالج تب وقوع پذیر ہوتا ہے جب دماغ کو خون کی فراہمی رک جاتی ہے یا کم ہوجاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فالج کی دو اقسام ہوتی ہیں۔ اسکیمک اسٹروک جب دماغ کو خون کا بہاؤ رک جاتا ہے جبکہ دوسری قسم ہیمرج اسٹروک جس میں دماغ میں خون رستا ہے۔ زیادہ تر فالج اسکیمک قسم کے ہوتے ہین اور ان کا تعلق کسی مخصوص عوامل سے ہوتا ہے۔

19/12/2023

وٹامن بی 12 کی کمی اور اس کی علامات

وٹامن بی 12 انسان کے جسمانی افعال کیلئے اہم ترین وٹامنز میں سے ایک ہے۔ یہ جسم میں آکسیجن تقسیم کرنے کا ذمہ دار بھی ہے۔ اگر وٹامن بی 12 کم ہو تو اعضاء اور بافتوں (tissues) کو مناسب طریقے سے کام کرنے کے لیے ضروری آکسیجن نہیں ملتی اور جس سے خون کی کمی یعنی anemia ہوجاتا ہے۔

وٹامن بی 12 جسے ’cobalamin‘ بھی کہا جاتا ہے، جانوروں کی مصنوعات سے حاصل ہوتا ہے جیسے گوشت، مچھلی یا ڈیری پروڈکٹس۔ یہ وٹامن نئے ڈی این اے اور سرخ خلیات بنانے میں بھی مدد کرتا ہے۔

وٹامن B12 کی کمی اور اس کی علامات
انسانی جسم متعدد افعال کو انجام دینے اور اعصابی نظام کی صحت کے لیے وٹامن بی 12 اور فولیٹ پر انحصار کرتا ہے۔ اس وٹامن کی مقدار اگر ناکافی ہوجائے تو کچھ جسمانی افعال شدید متاثر ہوسکتے ہیں جن کی کچھ علامات درج ذیل ہیں:
1) شدید تھکاوٹ محسوس کرنا

2) پٹھوں کی کمزوری

3) منہ میں چھالے

4) بینائی کے مسائل

5) بھوک میں کمی یا وزن میں کمی

6) اسہال

7) زبان میں درد یا سرخی

8) سوئیاں چبھنے کا احساس (paresthesia)

B12 کی کمی کچھ ذہنی علامات کا سبب بھی بن سکتا ہے جیسے کہ:

1) دوہری شخصیت کا تجربہ ہونا

2) الجھن یا بھولپن

3) ذہنی دباؤ

4) یادداشت یا فیصلہ سازی کے مسائل

19/12/2023

کیا آپ اپنے جسم کو لیکر احساسِ کمتری کا شکار ہیں؟

کیا آپ کو اپنے جسم کے کچھ ظاہری پہلو ناپسند ہیں؟ اور آپ سوچتے ہوں کہ کاش آپ اپنے جسم میں فلاں فلاں ردوبدل کرکے اس کی ظاہری شکل کو بہتر سکتے؟ اگر ایسا ہے تو ایسی سوچ رکھنے والے آپ اکیلے نہیں ہیں۔
بہت سے لوگ اپنی جسمانی ساخت یا اس کے کچھ پہلوؤں سے ناخوش ہوتے ہیں۔ لیکن جب آپ اسی کو لیکر بیٹھ جائیں اور اس پر سوچتے رہیں تو یہ آپ کی خود اعتمادی کم کر سکتا ہے اور ڈپریشن میں لے کر جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ سماجی تعلقات سے متعلق مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ تو آخر اس سے کیسے نمٹا جائے؟

سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ اپنے جسم کو ذہنی اور دلی طور پر قبول کرنے کیلئے اس کا خوبصورت ہونا ضروری نہیں ہے۔ جب آپ اپنے جسم کو ویسے ہی پسند کرتے ہیں جیسا کہ وہ ہے تو آپ خود بہ خود اپنے جسم سے متعلق مثبت خیالات کو فروغ دیتے ہیں جس سے آپ کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔

اپنے جسم کو ذہنی طور پر کیسے قبول کیا جائے؟

کچھ لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ جسم کی اچھی باڈی امیج (اپنے جسم کے بارے میں کسی کا نقطہ نظر) کے لیے جسم کا بہتر شکل میں ہونا ضرورت ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ جب میں بہتر شکل میں آؤں گا تو مجھے اپنا جسم پسند آئے گا۔ تو یہ جان لیں کہ کوئی شخص بھی کامل (perfect) نہیں ہے۔ ہر ایک میں خامیاں موجود ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ بظاہر مثالی جسامت رکھنے والے لوگوں میں بھی۔ لہٰذا اپنے جسم کو موجودہ حالت میں دیکھیں، نہ کہ اس حالت میں جس میں آپ چاہتے ہیں۔

خود کو شرمندہ نہ کریں

جب آپ اپنے جسم کے بارے میں منفی نقطہ نظر رکھتے ہیں تو اس سے آپ کی عزت نفس کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ بات چاہے آپ دوسروں سے کہیں یا خود سے سوچیں۔ یہ اتنا ہی نقصان پہنچا سکتا ہے جتنا کہ کسی اور نے کہا ہو۔ اس لیے خود پر مہربانی اور حوصلہ افزائی کرنے والے بنیں۔ خود سے پوچھیں کہ کیا میں اپنے بہترین دوست کی بظاہر نامناسب جسامت کو لے اس پر منفی تبصرے کروں گا؟ آپ اپنے ساتھ بھی ایک اچھے دوست کی طرح سے ہی پیش آئیں۔

اپنا موازنہ دوسرے لوگوں سے کرنا چھوڑیں

کہاوت ہے کہ موازنہ خوشی کو اُچک لیتا ہے۔ اپنے جسم کے بارے میں پسندیدہ پہلوؤں کو دیکھیں اور ان کے لئے شکر گزار ہوں۔

تعریف کی جائے تو قبول کریں

جب کوئی آپ کے جسم سے متعلق تعریفی کلمات کہے تو اس پر یقین نہ کرنے کے بجائے شکریہ کہیں اور اس کی سچائی کو تسلیم کریں۔

"اپنے ہاتھوں کو کب اور کیسے دھوئیں"ہاتھ دھونا خود کو اور اپنے خاندان کو بیمار ہونے سے بچانے کے بہترین طریقوں میں سے ایک ...
08/01/2023

"اپنے ہاتھوں کو کب اور کیسے دھوئیں"

ہاتھ دھونا خود کو اور اپنے خاندان کو بیمار ہونے سے بچانے کے بہترین طریقوں میں سے ایک ہے۔ صحت مند رہنے کے لیے آپ کو کب اور کس طرح اپنے ہاتھوں کو دھونا چاہیے۔

جراثیم کیسے پھیلتے ہیں
ہاتھوں کو دھونا آپ کو صحت مند رکھ سکتا ہے اور تنفسی اور ڈائریا والے انفیکشنز کو ایک شخص سے دوسرے میں پھیلنے سے روکتا ہے۔ دوسرے لوگوں یا سطحوں سے جراثیم پھیل سکتے ہیں جب آپ بغیر دھلے ہاتھوں سے اپنی آنکھوں، ناک یا منہ کو چھوتے ہیں بغیر دھلے ہاتھوں سے غذا یا مشروبات تیار کرتے یا کھاتے پیتے ہیں
آلودہ سطح یا چیزوں کو چھوتے ہیں
ہاتھ سے اپنی ناک صاف کرتے ہیں، اس میں کھانستے، یا چھینکتے ہیں اور پھر دوسرے لوگوں کے ہاتھوں یا عام چیزوں کو چھوتے ہیں۔

ہاتھوں کو دھونے کے اہم اوقات
آپ اکثر اپنے ہاتھوں کو دھو کر صحت مند رہنے میں اپنی اور اپنے عزیزوں کی مدد کر سکتے ہیں، خاص طور پر ان اہم اوقات کے دوران جب آپ کو جراثیم لگنے اور پھیلنے کا خطرہ ہو:
کھانا تیار کرنے سے قبل، اس کے دوران اور بعد میں
کھانا کھانے سے قبل اور بعد میں
گھر پر کسی ایسے فرد کی دیکھ بھال کرنے سے قبل اور بعد میں جسے قے یا ڈائریا کی بیماری ہو
کٹنے یا زخم کا علاج کرنے سے قبل اور بعد میں
ٹوائلٹ استعمال کرنے کے بعد
ڈائپر تبدیل کرنے یا ایسے بچے کی صفائی کرنے کے بعد جس نے ٹوائلٹ استعمال کیا ہو
اپنی ناک صاف کرنے، کھانسنے یا چھینکنے کے بعد
کسی جانور، جانور کی غذا، یا جانور کا فضلہ چھونے کے بعد
پالتو جانور کی غذا یا کھانے کی چیزیں چھونے کے بعد
کوڑا چھونے کے بعد۔

ہاتھوں کو دھونے کے اہم اوقات کی فہرست کے لیے ہدایات متعدد مطالعات سے حاصل ڈیٹا کی بنیاد پر تیار کیے گئے ہیں۔ ایسے دیگر اوقات بھی ہو سکتے ہیں جب ہاتھوں کو دھونا اہم ہو سکتا ہے۔

اپنی آنکھوں، ناک اور منہ کو چھونے سے قبل اور بعد میں
اپنے ماسک کو چھونے سے قبل اور بعد میں
عوامی مقامات میں داخل ہونے سے قبل اور نکلنے کے بعد
ایسی چیز یا سطح کو چھونے کے بعد جسے اکثرو بیشتر دوسرے لوگوں کے ذریعہ چھوا جاتا ہو، جیسے کہ دروازے کے ہینڈلز، ٹیبلز، گیس پمپس، شاپنگ کارٹس، یا الیکٹرانک
اپنے ہاتھوں کو صحیح طریقے سے دھونے کے لیے پانچ اقدامات پر عمل کریں
اپنے ہاتھوں کو دھونا آسان ہے، اور یہ جراثیم کے پھیلنے کو روکنے کے مؤثر ترین طریقوں میں سے ایک ہے۔ ہاتھ صاف ہونے سے ایک فرد سے دوسرے فرد میں اور ایک پوری کمیونٹی میں—آپ کے گھر اور کام کی جگہ سے لے کر بچوں کی دیکھ بھال کی سہولیات اور ہسپتالوں تک میں جراثیم کا پھیلنا رک سکتا ہے۔

ہر وقت ان پانچ اقدامات پر عمل کریں۔
اپنے ہاتھوں کو صاف، بہتے (نیم گرم یا ٹھنڈے) پانی سے بھگوئیں، نل بند کردیں اور صابن لگائیں۔
ہاتھوں کو آپس میں مل کر اپنے ہاتھوں پر جھاگ بنائیں۔ اپنے ہاتھوں کی پشت پر، اپنی انگلیوں، اور اپنے ناخنوں کے نیچے جھاگ بنائیں۔
کم از کم 20 سیکنڈ تک رگڑیں۔
صاف، بہتے پانی کے نیچے اپنے ہاتھوں کو اچھی طرح کھنگالیں۔
اپنے ہاتھوں کو صاف تولیے سے پونچھ کر یا ہوا کے ذریعے سکھائیں۔
جب آپ صابن اور پانی استعمال نہ کرسکیں تو ہاتھ صفا (ہینڈ سینیٹائزر) کا استعمال کریں۔
اگر پانی اور صابن دستیاب نہ ہو تو آپ الکحل پر مبنی ہینڈ سینیٹائزر کا استعمال کر سکتے ہیں جس میں کم از کم %60 الکحل ہو۔
زیادہ تر حالات میں ہاتھوں کو صابن اور پانی سے دھونا جراثیم سے چھٹکارا پانے کا بہترین طریقہ ہے۔ اگر پانی آسانی سے دستیاب نہ ہو تو، آپ الکحل پر مبنی ہینڈ سینیٹائزر کا استعمال کر سکتے ہیں جو %60 الکحل پر مشتمل ہوتا ہے۔ آپ پروڈکٹ کا لیبل دیکھ کر بتا سکتے ہیں کہ آیا ہاتھ صفا میں کم از کم %60 الکحل شامل ہے یا نہیں۔
بہت سے حالات میں ہاتھ صفا بہت تیزی سے ہاتھوں پر موجود جراثیم کی تعداد کو کم کر سکتا ہے۔ البتہ،
ہینڈ سینیٹائزرز تمام اقسام کے جراثیم سے چھٹکارا نہیں دلا سکتے۔
جب ہاتھ واضح طور پر گندے یا چپچپے ہوں تو ہاتھ صفا اتنا مؤثر نہیں ہوسکتا۔
ہاتھ صفا ہاتھوں سے نقصاندہ کیمیائی اجزاء جیسے کہ جراثیم کُش اور بھاری دھاتوں کو نہیں ہٹا سکتا۔
ہاتھ صفا کیسے استعمال کریں
احتیاط! اگر دو بار سے زیادہ منہ بھر کر الکحل پر مبنی ہاتھ صفا کو نگل لیا جائے تو اس کی وجہ سے الکحل پوائزننگ ہو سکتی ہے۔ ۔۔ اسے چھوٹے بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں اور ان کے ذریعے اس کے استعمال کی نگرانی رکھیں۔
جیلی نما پروڈکٹ کو ایک ہاتھ کی ہتھیلی پر ڈالیں (درست مقدار جاننے کے لیے لیبل پڑھیں)۔
اپنے ہاتھوں کو باہم رگڑیں۔
جیلی نما شئے کو اپنے ہاتھوں اور انگلیوں کی سطح پر اچھی طرح رگڑ کر لگائيں جب تک کہ آپ کا ہاتھ خشک نہ ہوجائے۔ اس میں لگ بھگ 20 سیکنڈ لگیں گے۔

Toggle navigationپاکستان ہیپاٹائٹس سی کے مریضوں کے سرِفہرست ممالک میں پہلے نمبر پر آگیا. یپاٹائٹس سی کے پھیلاؤ میں دنیا...
03/12/2022

Toggle navigation
پاکستان ہیپاٹائٹس سی کے مریضوں کے سرِفہرست ممالک میں پہلے نمبر پر آگیا. یپاٹائٹس سی کے پھیلاؤ میں دنیا کا سرِفہرست ملک بن گیا ہے۔

چین اور بھارت سے بھی آگے نکلتے ہوئے اب پاکستان ہیپاٹائٹس سی کے سب سے زیادہ مریضوں والا ملک بن چکا ہے جبکہ ہر دس میں سے ایک فرد ہیپاٹائٹس کی کسی نہ کسی کیفیت میں گرفتار ہے۔ ڈاکٹروں اور عوامی صحت کے ماہرین نے زور دے کر کہا ہے کہ اس ضمن میں پی سی آر ٹیسٹ کو فروغ دیا جائے تاکہ ہیپاٹائٹس سی کی بروقت شناخت کی جاسکے۔ تاہم یہ طے ہوچکا ہے کہ ہیپاٹائٹس سی کی شکار سب سے بڑی آبادی پاکستان میں موجود ہے جو ایک طبی بوجھ کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ اس طرح ملک میں جگر کے سرطان کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ گورنمنٹ نے بڑی شدومد کے ساتھ اس مرض کے خاتمے کی مہم چلائی تھی جس کے تحت 2030 تک ملک سے ہیپاٹائٹس کے تمام اقسام کا خاتمہ کرکے عوام کو اس مرض سے نجات دلانا تھی۔ اس کے باوجود مرض کی شرح بڑھ رہی ہے اور ملک میں لگ بھگ ایک کروڑ افراد ہیپاٹائٹس سی کے شکار ہیں جن کی تشخیص اور علاج کی ضرورت ہے۔

"مختلف اقسام کے تیل اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد"قدرت کی عطاکردہ ہرنعمت کسی نہ کسی طور انسانی صحت کے لیے فائدہ مند ہے ...
31/05/2022

"مختلف اقسام کے تیل اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد"

قدرت کی عطاکردہ ہرنعمت کسی نہ کسی طور انسانی صحت کے لیے فائدہ مند ہے ،یہ نعمتیں پھلوں کی صورت ہوں ،سبزیوں کی ،جڑی بوٹیوں یا پھر تیلوں کی صورت کہیں یہ انسان کے لیے بیماریوں سے نجات کا ذریعہ ثابت ہوتی ہیں تو کہیں اس کی صحت مند اور لمبی زندگی کی ضمانت بنتی ہے ،۔تیل ایک ایسی نعمت ہے جن کا استعمال آج کی تیز رفتار دنیامیں نیز ترقی یافتہ ممالک میں مختلف بیماریوں کا علاج اور جسمانی اعضاء کو صحت مند بنانے کے لئے کیا جارہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج مختلف سبزیوں ، میووں اور پھلوں کے تیل قدرتی تحفوں کی شکل میں بازار میں آسانی سے دستیاب ہیں بہت سے تیل کھانے اور کچھ بیرونی استعمال کے لئے تیار کئے جاتے ہیں آج ہم اپنے قارئین کچھ ایسے ہی فائدہ مند اور مؤثر تیلوں کا ذکر کرنے جارہے ہیں یہ تیل کس طرح فائدہ مند ہیں اور کیوں آئیے آج کے مضمون کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں.

کیسٹر آئل
کیسٹر آئل دنیا بھر مشہور ومعروف تیلوں میں سے ایک تیل کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے ۔اس کی خاصیت یہ ہے کہ یہ ایک یجیٹیبل آئل ہے ۔ جو اپنی اینٹی بیکٹیریل اور دافع سوزش خصوصیات کی بناء پردنیا بھر میں مشہور ہے ۔آپ نے بھی سنا ہوگا کہ مختلف کاسمیٹکس،صابن، مساج آئل اور ادویات تک میں کیسٹر آئل ہی استعمال کیاجاتاہے ۔

اسکے ساتھ ساتھ یہ آپکی جلد ، بال اور صحت کے لئے بہترین ہے۔کیسٹر آئل علاج کے لئے سستااور قدرتی ہے لیکن یہ عام طور پراپنے فوائد کے حوالے سے کم جانا جاتاہے۔ یہ نہ صرف آپکے جسم کے لئے بہت سے فوائد کاحامل ہے بلکہ یہ داغ اورلوور بیک پین سے نجات اور موچ میں بھی موثر اورشفاء بخش ہے۔

بادام کا تیل
اگرچہ بادام کا تیل خاصا مہنگا ہوتا ہے لیکن یہ اپنے اندر ایسے ہی پوشیدہ خزانے چھپائے ہوئے ہےیہ تیل نہ صرف خوبصورتی بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے بلکہ اس میں بہت سی بیماریوں کا حل بھی پوشیدہ ہے ۔ریسرچ کے مطابق بادام کے تیل میں انسیچیوریٹڈ فیٹ کے ساتھ ساتھ فائبر اور دیگر منرلز پائے جاتے ہیں جونہ صرف کولیسٹرول کم کرنے بلکہ دل کے امراض اور شوگر سے بھی بچاتے ہیں۔

ناریل کا تیل
دنیا بھر میں ناریل کے تیل کی درجہ بندی ’’سپر فوڈ‘‘کے طور پر کی جاتی ہے۔ ناریل میں قدرتی طور پر اینٹی بیکٹیریا، اینٹی ٹاکسائیڈ اور اینٹی فنگل اجزا شامل ہوتے ہیں اور یہ مختلف وٹامنز اور منرلز سے بھرپور ہوتا ہے۔ یوں کہہ لیں کہ ناریل کا تیل فیٹی ایسڈ کا ایک ایسا مجموعہ ہے، جو صحت پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔

ان میں وزن میں کمی، دماغی صلاحیت میں بہتری ،گردوں کی اچھی صحت اور مدافعتی نظام سمیت دیگر متاثر کن فوائد شامل ہیں جبکہ تیل میں شامل سیچوریٹڈ فیٹس فائدہ مند کولیسٹرول کی سطح میں اضافہ کرتے ہیں، جو قلبی امراض سے بچاؤ میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ناریل کا تیل خوبصورتی بڑھانے کا ذریعہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ نرم وملائم جِلد کا حصول ، بالوں کی نشوونما یا پھر جگمگاتے دانتوں کی خواہش پوری کرنے کیلئے ناریل کا تیل بہترین انتخاب ثابت ہوتاہے۔

زیتون کا تیل
صحت و تندرستی کیلئے زیتون کا تیل ایک ایسا انتخاب ہے، جس کی نظیر نہیں ملتی۔یہ نہ صرف کھانوں میں بلکہ بطور بیوٹی پراڈکٹ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ صحت کے حوالے سے بات کی جائے تو زیتو ن کا تیل مفید مونو اَن سیچوریٹڈ فیٹس، کثیر مقدار میں اینٹی آکسیڈنٹس اور اینٹی انفلیمینٹری خصوصیات پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کھانا پکانے کےدوران اس کا استعمال زیادہ سے زیادہ کیا جانے لگا ہے۔ اس کا استعمال ہارٹ اٹیک، اسٹروک اور الزائمر سے تحفظ فراہم کرتا ہے جبکہ جِلد کی خوبصورتی کیلئے بہترین موئسچرائزر اور بالوں کی نشوونما کیلئے بہترین ٹانک ہے۔

Address

Oppt Jamia Masjid Fareedia, Housing Colony No 1
Toba Tek Singh
36050

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when AL-Farooq Homoeopathic Health Care Clinic Toba Tek Singh posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to AL-Farooq Homoeopathic Health Care Clinic Toba Tek Singh:

Share