21/07/2025
" آم کے آم گھٹلیوں کے دام " محاورے کی اصل حقیقت
عام سمجھے جانے والی آم کی گٹھلی کے کچرے سے خزانے تک کا سفرپڑھ کر آپکو اوپر لکھے محاورے کی سمجھ اچھی طرح آجائے گی
پاکستانی ہر سال آم کے موسم کا شدت سے انتظار کرتے ہیں۔ بازار خوشبوؤں سے مہکنے لگتے ہیں، اور گھروں میں آموں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ لیکن کبھی کیا ہم نے سوچا ہے کہ اس لذیذ پھل کا وہ حصہ، جو ہم کچرے میں پھینک دیتے ہیں – یعنی اس کی گٹھلی وہی دراصل خزانے کی چابی ہے؟
پاکستان میں سالانہ تقریباً پندرہ لاکھ ٹن آم پیدا ہوتے ہیں، جن میں سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ ٹن برآمد کر دیے جاتے ہیں، باقی ہم خود مزے لے لے کر کھاتے ہیں۔ اگر اوسطاً ہر آم میں پچیس فیصد گٹھلی ہو، تو سالانہ تین لاکھ ٹن کے قریب گٹھلیاں بن جاتی ہیں — جو بے دردی سے کوڑے دان کی نذر ہو جاتی ہیں۔
ہم اکثر کہتے ہیں کہ تحقیق، جستجو، اور مشاہدہ ترقی کی کنجی ہے، لیکن خود اپنی سرزمین پر پڑے خزانے کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔ دہائیوں سے آم کھا رہے ہیں مگر نہ کبھی کسی سائنسدان نے، نہ کسی حکیم نے یہ سوال اٹھایا کہ اس گٹھلی میں آخر چھپا کیا ہے۔
آخرکار، مغرب کی آنکھ نے ہمیں بتایا کہ آم کی گٹھلی میں ایک نہایت قیمتی گری موجود ہوتی ہے، جس میں 10 سے 12 فیصد ایک ایسا مکھن ہوتا ہے جو کوکا بٹر سے مشابہت رکھتا ہے وہی کوکا بٹر جو مہنگی ترین چاکلیٹس کا بنیادی جزو ہوتا ہے۔ بین الاقوامی منڈی میں اس کی قیمت 1100 روپے فی کلو ہے، اور بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ آم کی گٹھلی سے حاصل شدہ مکھن کی خوشبو کوکا بٹر سے بھی بہتر ہوتی ہے۔ اس مکھن سے حاصل ہونے والا تیل جلد اور بالوں کے لیے کمال کی چیز ہے اس تیل کی قیمت پانچ ہزار روپے فی کلو تک جا پہنچتی ہے۔ اور تیل بھی نکل جائے، تو جو باقی بچتا ہے، وہ ایک ایسا آٹا ہے جو نہ صرف گلُوٹن فری ہے، بلکہ غذائیت سے بھرپور بھی ہے۔
اب ذرا تصور کریں: اگر ہم ہر سال آم کھانے کے بعد گٹھلیاں ضائع نہ کریں، بلکہ منظم انداز میں انہیں اکٹھا کریں، تو ہم تقریباً ڈیڑھ لاکھ ٹن گری حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سے اندازاً 15 ہزار ٹن مکھن حاصل ہوگا، جس کی قیمت کئی ارب روپے بنتی ہے۔ صرف یہی نہیں، بچا ہوا آٹا چار ارب روپے کی قدر رکھتا ہے۔
مطلب صرف گٹھلیوں سے بارہ ارب روپے کی معیشت کھڑی ہو سکتی ہے یعنی چالیس ہزار خاندانوں کو ماہانہ پچیس ہزار روپے کی مستقل آمدن دی جا سکتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت پہلے ہی آم کی گٹھلی کے اس خزانے سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے اور دنیا بھر کو برآمدات کر رہا ہے۔ ان کی حکومت نے باقاعدہ ہدف مقرر کر رکھا ہے کہ تیس ہزار ٹن مکھن سالانہ نکالا جائے گا۔
اگر ایک چھوٹے پیمانے کا یونٹ لگایا جائے ایک سولر ڈی ہائیڈریٹر اور ایک ہائیڈرالک آئل پریس، جس کی لاگت پانچ سے چھ لاکھ روپے ہو تو روزانہ تیس سے ساٹھ کلو تک مکھن نکالا جا سکتا ہے۔ صرف ایک ماہ کی پیداوار اس سسٹم کی لاگت سے زیادہ ہوگی۔ سوچنے کی بات ہے، یہ موقع ہر گاؤں ہر قصبے ہر آم کھانے والے کے دروازے پر موجود ہے بس آنکھیں کھولنے کی دیر ہے۔
قدرت کی فیاضی پر کوئی شبہ نہیں، لیکن مسئلہ ہماری بے نیازی ہے۔ اگر ہم نے اپنے اردگرد کی چیزوں کو نظرانداز کرنے کی بجائے، ان پر تحقیق شروع کر دی، تو یقین کیجیے، غربت کا خاتمہ دور کی بات نہیں بلکہ ممکنہ حقیقت ہے