Assistant Professor Dr Neelum Zahir gynaecology & obs clinic

Assistant Professor Dr Neelum Zahir gynaecology & obs clinic Dr neelum zahir
MBBS, FCPS GYNE & OBS ( GOLD MEDIALIST)
MRCOG ( England)
ACRM ( FEMALE INFERTILITY)

23/08/2023
13/08/2023

مجھے بانجھ پن کا علاج کب کرنا چاہیے؟

ماہرین بانجھ پن کی تشخیص کا مشورہ دیتے ہیں اگر آپ 1 سال کے بعد پیدائشی کنٹرول کا استعمال کیے بغیر حاملہ نہیں ہوئے ہیں۔ اگر آپ کی عمر 35 سال سے زیادہ ہے، تو 6 ماہ کی کوشش کے بعد جانچ کا مشورہ دیا جاتا ہے

11/08/2023

بانجھ پن کے لیے دونوں جوڑے ذمہ دار ہو سکتے ہیں۔
50% مرد، 50% خواتین
لہذا دونوں کی تشخیص ضروری ہے۔

ہمارے سیٹ اپ میں مردانہ بانجھ پن کا علاج مردانہ بانجھ پن کے ماہر ڈاکٹر کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

اور خواتین میں بانجھ پن اور متعلقہ مسائل کا علاج لیڈی ڈاکٹر گائناکالوجسٹ اور بانجھ پن کے ماہر کے ذریعے کیا جاتا ہے
ڈاکٹر نیلم ظاہر
ایم بی بی ایس
ایف سی پی ایس گائناکالوجی
ایم آر سی او جی (انگلینڈ)
ACRM (بانجھ پن)
اسسٹنٹ پروفیسر سیدو ٹیچنگ ہسپتال

کلینک
پیر تا جمعہ
کنگز انٹرنیشنل ہسپتال سیدو شریف سوات

ہفتہ اتوار
سوات فرٹیلٹی اینڈ کڈنی کیئر سنٹر

0333-6969971
0346-9251784

11/08/2023

تھائرائڈ کا مرض اور دورانِ حمل پڑنے والے اثرات
تھائرائڈ ، جسم میں تھائرائڈ گلینڈز پر اثر انداز ہونے والی بیماری ہے۔ جس میں جسم بہت زیادہ مقدار میں یا بہت کم مقدار میں تھائرائڈ ہارمونز بناتا ہے۔ تھائرائڈ ہارمونز میٹابولزم کے عمل کو درست رکھتے ہیں جس کے ذریعے جسم توانائی کو جذب کرتا ہے۔ اس طرح یہ جسم کے ہر حصے پر اثرانداز ہوتا ہے۔ جسم میں تھائرائڈ ہارمونز کی مقدار کا بہت بڑھ جانا ہائپر تھائروڈیزم کہلاتا ہے۔ جس سے جسم کے اندر بہت سے کام بہت تیزی سے ہونے لگتے ہیں۔ اسی طرح تھائرائڈ ہارمونز کی کم مقدار ہائپر تھائروڈیزم کہلاتی ہے جس سے جسم کے بہت سے کام سست رفتاری سے ہونے لگتے ہیں۔
حمل کے دوران تھائرائڈ ہارمونز ماں اور بچے دونوں کی صحت اور نشونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ایسی حاملہ خواتین جو تھائرائڈ کی بیماری کا شکار ہیں۔ حمل میں تھائرائڈ کے ضروری ٹیسٹ کراکر اور صحیح دوائیں لے کر اپنا اور اپنے ہونے والے بچے کی صحت کا خیال رکھ سکتی ہیں۔
حمل کا تھائرائڈ فنکشن پر اثر:
بچے کے دماغ اور نروس سسٹم کو بنانے کے لیے تھائرائڈ ہارمونز اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس لیے شروع کے تین ماہ بچے کی نشونما کے لیے ماں کے تھائرائڈ ہارمونز کام کرتے ہیں تین ماہ بعد بچے کے اپنے تھائرائڈ گلینڈز یہ کام انجام دینے لگتے ہیں۔ حمل میں جسم کو تھائرائڈ ہارمونز کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اس لیے حمل سے متعلق ہارمونز زیادہ تھائرائڈ ہارمونز بناتے ہیں۔
ایک صحت مندحاملہ خاتون میں بھی تھائرائڈ کا سائز معمولی سا بڑھ جاتا ہے ۔ صرف اس کے بڑھے ہوئے سائز پر ہی بیماری کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ زیادہ بڑھا ہوا تھائرائڈ بیماری کی نشاندہی کر سکتا ہے۔ حمل میں خون میں تھائرائڈ ہارمونز کی زیادہ مقدار کی وجہ سے تھائرائڈ کی بیماری کا اندازہ لگانا مشکل ہوسکتا ہے۔ کیونکہ تھائرائڈ کا بڑھا ہوا سائز ، سستی اور دوسری علامات حمل اور تھائرائڈ کی بیماری دونوں میں موجود ہوتی ہیں۔
ہائپر تھائروڈیزمکے حمل پر اثرات:
حمل میں اگر ہائپر تھائروڈیزم پر کنٹرول نہ کیا جائے تو بہت سی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔
۔ حمل میں بلڈپریشر کا بہت زیادہ بڑھ جانا۔
۔ تھائرائڈ کی علامات شدید ہوجانا۔
۔ حمل گر جانا۔
۔ وقت سے پہلے بچے کی پیدائش۔
۔ بچے کے وزن میں کمی ہوجانا۔
ایسی خواتین جن کی تھائرائڈ کے لیے سرجری ہوچکی ہو یا ریڈیو ایکٹو آئیوڈین ٹریٹمنٹ ہوا ہو، انہیں اپنے ڈاکٹر کو اس بارے میں ضرور آگاہ کرنا چاہیئے تاکہ بچے کو پیش آنے والے مسئلے کو ڈاکٹر وقت سے پہلے کنٹرول کر لیں۔
ہائپر تھائروڈیزم کی وجہ سے نومولود کی دل کی دھڑکن تیز ہوکر ہارٹ فیلئر کا باعث بن سکتی ہے۔وزن اچھی طرح نہ بڑھنا، حساسیت کا بڑھ جانا اور بعض اوقات تھائرائڈ گلینڈز بڑے ہونے کی وجہ سے سانس کی نالی پر دباؤ پڑتا ہے اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ اس بیماری میں مبتلا خواتین اور ان کے نومولود بچوں کی انتہائی نگہداشت ضروری ہے۔
ہائپر تھائروڈیزمکے حمل پر اثرات:
ہائپر تھائروڈیزم پر قابو نہ پایا جائے تو بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔
۔ حمل میں الٹی متلی آنا۔
۔ انیمیاء۔ ریڈ بلڈسیلز کی خون میں کم مقدار ہونا جو جسم کو آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔
۔حمل گر جانا۔
۔ بچے کا وزن کم ہوجانا۔
۔ مردہ بچہ پیدا ہونا۔
بچے کی ذہنی نشونما کے لیے تھائرائڈ ہارمونز بہت ضروری ہیں۔ ہائپر تھائروڈیزم پر اگر قابو نہ پایا جائے خاص طور پر حمل کے شروع کے تین ماہ میں تو یہ بچے کی جسمانی اور ذہنی نشونما پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
کچھ اہم باتیں:
۔ تھائرائڈ کی بیماری میں تھائرائڈ گلینڈز بہت کم یا بہت زیادہ تھائرائڈ ہارمونز بناتے ہیں۔
۔ حمل میں تھائرائڈ کے فنکشن میں معمولی تبدیلی آتی ہے لیکن یہ بیماری کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہے۔
۔ ہائپر تھائروڈیزم پر قابو نہ پایا جائے تو ماں اور بچے کی صحت پربرے اثرات رونما ہوتے ہیں۔
۔ حمل کے دوران ہائپر تھائروڈیزم کا علاج antithyroid دواؤں سے کیا جاتا ہے۔
ہائپر تھائروڈیزم کا علاج thyroxineسے کیا جاتا ہے۔

11/08/2023

ڈاکٹر نیلم ظاہر
ایم بی بی ایس
ایف سی پی ایس (گائنی اور اوبیس)
mrcog (انگلینڈ)
acrm ( بانجھ پن زنانہ )

کلینک
کنگز انٹرنیشنل ہسپتال
پیر سے جمعہ (3 سے 8 بجے تک)

ہفتہ اتوار
سوات فرٹیلٹی اینڈ کڈنی سنٹر کانجو سوات

ماہر ڈاکٹر کے ذریعہ بانجھ پن سے متعلق ہر چیز کا علاج اور مشاورت
0333-6969971
0346-9251784

25/12/2022

کلینک کو
کنگز انٹرنیشنل ہسپتال منتقل
کر دیا گیا ہے۔
اوقات
3 سے 7 بجے تک
پیر سے ہفتہ
پیشگی مشاورت کے لیے
03129884222

اسسٹنٹ پروفیسر
ڈاکٹر نیلم ظاہر
ایم بی بی ایس
ایف سی پی ایس ( گائناکالوجی)
ایم آر سی او جی (برطانیہ)
A C RM 1 (خواتین بانجھ پن)
اسسٹنٹ پروفیسر گائنی بی وارڈ سیدو ٹیچنگ ہسپتال سوات

کلینک: کنگز انٹرنیشنل ہسپتال سیدو شریف (پی آئی اے بلڈنگ کے بالمقابل)

پیشگی نمبر کے لیے
0312-9884222

12/11/2022

اسسٹنٹ پروفیسر
ڈاکٹر نیلم ظاہر
ایم بی بی ایس
ایف سی پی ایس ( گائناکالوجی)
ایم آر سی او جی (برطانیہ)
A C RM 1 (خواتین بانجھ پن)
اسسٹنٹ پروفیسر گائنی بی وارڈ سیدو ٹیچنگ ہسپتال سوات
کلینک:kings international hospital سیدو شریف
پیشگی نمبر کے لیے
0312-9884222
پیر سے ہفتہ تک
اتوار = چھٹی

08/11/2022

اسسٹنٹ پروفیسر
ڈاکٹر نیلم ظاہر
ایم بی بی ایس
ایف سی پی ایس گائناکالوجی اینڈ اوبس (گولڈ میڈلسٹ)
ایم آر سی او جی
ACRM (بانجھ پن، بے اولاد)
اسسٹنٹ پروفیسر گائنی بی وارڈ سیدو ٹیچنگ ہسپتال
کلینک شفا ہسپتال سیدو شریف سوات
پیر سے ہفتہ



08/11/2022

خواتین کا بانجھ پن

بانجھ پن کا مطلب ہے کہ کم از کم ایک سال کی کوشش کے بعد حاملہ نہ ہونا (یا 6 ماہ اگر عورت کی عمر 35 سال سے زیادہ ہے)۔ اگر عورت کا اسقاط حمل ہوتا رہے تو اسے بانجھ پن بھی کہتے ہیں۔ خواتین میں بانجھ پن کا نتیجہ عمر، جسمانی مسائل، ہارمون کے مسائل اور طرز زندگی یا ماحولیاتی عوامل سے ہو سکتا ہے۔

07/11/2022

Poly Cystic Overy Syndrome (PCOS)
پولی سسٹک اووری سینڈروم

تعریف۔۔۔۔۔۔۔۔۔PCOS وہ مرض ہے جس میں عورتوں کا ایسٹروجن اور پروجیسٹرون ہارمون کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ اور خواتین کی بیضہ دانیوں میں سسٹ بننے لگتے ہیں۔ PCOS کی وجہ سے خواتین کے ماہانہ نظام۔ حمل کی صلاحیت۔ دل کے فعل اور ظاہری حسن و جمال پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اور علاج نہ ہونے کی صورت ذیابیطس۔ امراض قلب اور بے اولادی جیسے گھمبیر مسائل جنم لیتے ہیں۔

ہارمون کیا ہیں۔ اور PCOS میں کیا واقع ہوتاہے۔؟؟؟
ہارمون ہمارے اینڈوکرائین سسٹم سے اخراج پانے والی کیمیائی رطوبات ہیں جو بشمول جسمانی گروتھ اور توانائی پیدا کرنے کے دیگر بہت سے جسمانی عوامل کو چلانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ بعض ہارمون دیگر ہارمونز کے اجراء کا باعث بھی ہوتے ہیں۔ سائنسدان ابھی تک ہارمونز کے غیر متوازن ہونے کے اسباب سے کلی آگاھی حاصل نہیں کر پائے۔ ایک ہارمون کی کمی بیشی دوسرے ہارمون کی پیدائش پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اور دوسرا ہارمون کسی تیسرے ہارمون کی پیدائش پر اثرانداز ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جنسی ہارمون کا غیر متوازن ہونا اس میں زنانہ بیضہ دانی عموما معمولی مقدار میں مردانہ ہارمون اینڈروجن پیدا کرتی ہے۔ لیکن PCOS میں رفتہ رفتہ اووری سے مردانہ ہارمون کی پیدائش بڑھ جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے ہر ماہ بیضوں کا اخراج متاثر ہوتا ہے۔ چہرے پر ایکنی اور جسم پر بالوں کی پیدائش غیر معمولی طور پر بڑھ جاتی ہے۔
جسم میں انسولین کے انجذاب کا مسلہ پیدا ہوسکتا ہے اسے انسولین کی مزاحمت کہا جاتا ہے۔ جب انسولین خلیات میں نہ جذب ہوسکے تو خون میں گلوکوز کی مقدار جمع ہوکر بڑھ جاتی ہے۔ اس طرح ذیابیطس پیدا ہونے کا خطرہ درپیش ہوتا ہے۔

پی سی او ایس کے اسباب۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہرین ابھی تک PCOS کے اسباب مکمل طور پر نہیں جان پائے مگر اس مرض میں وراثتی خلل Genetic disorder کے شواہد ملے ہیں۔ PCOS کا مرض خاندان میں وراثتا منتقل ہوسکتا ہے اگر کسی خاندان کی دیگر خواتین میں PCOS ۔ ماہانہ نظام کی خرابی۔ یا شوگر پائی جاتی ہے تو اس خاندان کی باقی خواتین کو بھی اس مرض میں مبتلاء ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ PCOS ماں یا باپ دونوں اطراف سے اولاد میں منتقل ہوسکتا ہے۔

علامات۔۔۔۔۔
اس مرض کی علامات شروع میں کافی ہلکی اور غیر واضح ہوتی ہیں۔ لیکن کچھ خاص علامات سے اس مرض کی پہچان کی جاسکتی ہے۔

1۔ ایکنی۔ چہرے کے سرخ دانے جن میں بعد ازاں پیپ پڑجاتی ہے اور گاہے پیپ خشک ہوکر کیل بن جاتے ہیں۔ ان کو دبانے سے کیلوں کی جگہہ پر سیاہ داغ بھی بن جاتے ہیں۔

2۔ لیکیوریا۔۔۔۔ شروع میں پانی جیسی رطوبت خارج ہوتی ہے لیکن بعد میں یہ رطوبت گاڑھی ہوکر سفید یا زرد رنگ کا جما ہوا بدبودار مواد تھکوں کی صورت بھی اختیار کرلیتا ہے۔

3۔ مینسز کا بگاڑ۔۔۔۔۔۔۔
شروع میں مینسز درد کے ساتھ اور کم آتے ہیں۔ عموما خون سیاھی مائل لوتھڑوں کی صورت آتا ہے۔ رفتہ رفتہ مینسز کم ہوتے جاتے ہیں۔ ان کا درمیانی وقفہ بڑھتا جاتا ہے۔ یعنی سال کے بارہ ماہ میں صرف 9 بار مینسز ہونا۔ پھر یہ وقفہ بڑھتا جاتا ہے اور بالآخر مینسز بند ہوجاتے ہیں۔

4۔ وزن بڑھنا۔۔۔
مینسز کم ہونے کے ساتھ ساتھ عورت کا وزن بڑھنے لگتا ہے۔ جسم میں چربی پیٹ۔ کولہے وغیرہ پر جمنے لگتی ہے۔

5۔ جسم اور چہرے پر غیر ضروری بال آنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ خواتین کے چہرے پر موٹے گھنے اور سیاہ بال نکل آتے ہیں۔ جو بڑھتے بڑھتے پیٹ اور پشت پر بھی نمودار ہوجاتے ہیں۔ جبکہ سر کے بال کمزور ہوکر گرنے لگتے ہیں۔

6۔ بےاولادی۔۔۔۔۔۔
مینسز میں بےقائدگی اور اوورین سسٹ کی وجہ سے بیضوں کا اخراج متاثر ہوکر حاملہ ہونے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے۔ لیکن سسٹ کی موجودگی میں بھی پچاس فیصد حمل کے چانس ہوتے ہیں۔

اناٹومی و فزیالوجی
بیضہ دانی Overy۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی تعداد دو ہوتی ہے۔ اور شکل میں بیضوی بادام جیسی ہوتی ہیں۔ لمبائی ڈیڑھ انچ۔ چوڑائی پونا انچ۔ موٹائی آدھا انچ اور وزن دو سے تین گرام ہے جو سن یاس میں ایک سے ڈیڑھ گرام رہ جاتا ہے۔
یہ گلٹیاں مردوں کے خصیوں سے مشابہہ ہوتی ہیں۔ ان میں ریت کے دانوں کی طرح آپس میں ملے ہوئے بیشمار بلبلے سے پائے جاتے ہیں۔ انہی بلبلوں کے اندر ovam یعنی بیضہ پائے جاتے ہیں۔
جب حیض آنے لگتا ہے تو یہ بلبلے پک کر پھٹتے ہیں اور ان سے بیضہ نکل کر قاذف نالی میں آجاتا ہے۔ اگر وہاں مرد کا سپرم اس بیضہ کو چھید کر اس میں داخل ہوجائے تو حمل قرار پاتا ہے۔ پھر یہی باردار بیضہ رحم میں جاکر اس کی دیواروں کے ساتھ چپک جاتا ہے۔

قاذفین نالیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دو عدد باریک نالیاں ہوتی ہیں۔ جو بیضہ کو اووری سے رحم تک پہچنے کا راستہ فراہم کرتی ہیں۔ انہیں نل یا نلے بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی کمبائی 4-6 انچ تک ہوتی ہے۔ قاذف نالی کا اندرونی حصہ بہت تنگ ہوتا ہے۔ گویا بال بھی نہیں گزر سکتا۔ اس کا ایک سرا رحم کی بالائی طرف اور دوسرا صفاق کے جوف پہ کھلتا ہے۔ بالائی حصہ شہنائی کی مانند پھیلا ہوا ہوتا ہے۔ جس کے سرے پر جھالر کی طرح بہت سے زوائد ہوتے ہیں۔ ان کو فیمبریا کہتے ہیں۔ ان زوائد میں سے ایک خصیتہ الرحم سے متصل رہتا ہے۔ یہ اس وقت مبیض کا خاص کر احاطہ کرتا ہے جب بیضہ خصیتہ الرحم سے گر کر اس میں آتا ہے۔

اوورین سسٹ کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟
سسٹ بیضہ دانی میں پائی جانے والی پانی کی تھیلیوں کو کہتے ہیں۔ یہ مرض پندرہ سے چالیس سال کی خواتین میں پایا جاتا ہے۔ اووری میں قشری سوزش کی وجہ سے جو اووم انمیچور رہ جاتا ہے۔ وہ وہیں رک جاتا ہے۔ حالانکہ اسے حیض کے ساتھ خارج ہونا چاہیئے تھا۔ یہی فولیکلز سوج ہوکر سسٹ کی صورت اختیار کرجاتے ہیں۔

تشخیص۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔۔ سب سے پہلے ماہانہ ایام کی حالت و کیفیت پوچھی جاتی ہے۔ نیز دیگر امراض کی ہسٹری معلوم کی جاتی ہے۔
2۔ جسمانی معائنہ سے بلڈپریشر معلوم کیا جاتا ہے۔ کیونکہ PCOS کی مریضائیں شروع میں قشری عضلاتی سوزش کی وجہ سے فشار الدم قوی والی ہوتی ہیں۔ انہیں غصہ کافی آتا ہے۔ بلڈ پریشر کی وجہ کولیسٹرول ہوتا ہے۔ لیکن بعد میں ضعف سے ان کی تحریک قشری اعصابی میں بدل جاتی ہے اور غصہ مسلسل نہیں رہتا۔ اس وقت قلب و عضلات میں تحلیل شروع ہوچکی ہوتی ہے۔ کچھ مریضاوں میں PCOS کے باوجود غصہ نہیں ہوتا کیونکہ ان کا بلڈ پریشر کم رہنے لگتا ہے۔
3۔ مریضہ کا قد اور وزن چیک کیا جائے۔ کیوں کہ موٹاپے کا آج کل سب سے بڑا سبب PCOS ہے۔ زیادہ وزن والی مریضہ قشری اعصابی میں چل رہی ہوتی ہے۔ چونکہ قشری اعصابی مریضہ کے عضلات میں ضعف ہوتا ہے۔ اس لیئے انہیں جسمانی دردیں اور پٹھوں میں کھچاو بھی رہتا ہے۔

4۔ مزید علامات جاننے کیلیئے درج زیل ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں۔

اول۔۔۔۔ لپڈز پروفائل
اس ٹیسٹ میں کولیسٹرول۔ ٹرائی گلیسرائیڈ۔ HDL. LDL اور VLDL شامل ہیں۔
دوم۔۔۔۔۔LFT
اس میں ALT ALP AST اور سیرم بلیروبن سے جگر کی کیفیت و سوزش اور اینزائمز کی مقدار معلوم ہوتی ہے
سوئم۔۔۔۔۔۔۔RFT
اس ٹیسٹ میں بلڈ یوریا۔ سیرم کریٹینائین۔ اور سیرم یورک ایسڈ کی صورت حال معلوم ہوتی ہے۔
چہارم۔۔۔۔۔ CBC
اگر اندرونی انفیکشنز بن چکے ہوں تو اس ٹیسٹ سے بلڈ سیلز کی مقدار و تعداد معلوم ہوتی ہے۔

5۔ ایبڈومینل الٹراساونڈ۔۔۔۔۔۔۔
اس ٹسٹ میں اندرونی اعضاء گردے کی پتھری کا سائز ۔ گردے کا سائز۔ پتے کی پتھریوں کا پتہ چلتا ہے۔ نیز بیضہ دانی کی سسٹ کی اقسام اور سائز کا علم ہوتا ہے۔ جگر اور طحال کا سائز معلوم ہوتا ہے۔ الغرض یہ ٹیسٹ بہت ضروری اور تشخیص میں معاون ہے۔

6۔ ہارمونل ٹیسٹ۔۔۔
ان ٹیسٹس کے زریعے ہارمونز کے ان بیلینس ہونے کا تخمینہ حاصل ہوتا ہے۔ ان کے مطالعے سے تھائی رائیڈ کے مسائل معلوم ہوتے ہیں۔

7۔ بلڈ شوگر اور انسولین ٹیسٹ۔

علاج بالنظریہ مفرد اعضاء اربعہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی سی او ایس کے علاج میں دوائی اور جراحت کے علاوہ تین بنیادی امور کی پابندی بہت ضروری ہے۔
1۔ باقائدہ ورزش۔۔۔۔۔۔۔
صحت مندانہ سرگرمیوں میں حصہ لیا جائے۔ سحر خیزی۔ پیدل چلنا بہترین عادات ہیں۔

2۔ باپرہیز کھانا۔۔۔۔۔۔۔۔
گوشت ہر قسم۔ چکنائیاں۔ انڈے۔ بیکری آئیٹمز۔ کیفین والی اغذیہ۔ پیزے۔ برگر۔ شوارمے۔ پیپسی۔ کولے۔ چاہے۔ فاسٹ فوڈ۔ مرغن اغذیہ۔ مرچ مصالحے وغیرہ سے پرہیز ضروری ہے۔ ریض کو اغذیہ معالج کی ہدایت کے مطابق لینی چاہیئیں۔

3۔ وزن پہ قابو رکھنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چکنائیوں پہ کنٹرول۔ مناسب ورزش وغیرہ سے خود کو سمارٹ رکھنا بہت ضروری ہے۔
4۔ حقہ۔ سگریٹ وغیرہ خواتین میں اینڈروجن ہارمون کا لیول بڑھادیتے ہیں جس کی وجہ سے PCOS تیزی سے بڑھتا ہے۔۔۔
Assistant Professor Dr Neelum Zahir gynaecology & obs clinic
APPOINTMENT 03129884222
MON TO SATURDAY



07/11/2022

Dr NEELUM ZAHIR
MBBS ( KMC)
FCPS ( GOLD MEDIALIST)
MRCOG (UK)
ACRM1 ( FEMALE INFERTILITY)
ASSISTANT PROFESSOR Gynaecologist & Infertility Specialist.
Call or WhatsApp Now for more information & Appointment:
03129884222


06/11/2022

اسسٹنٹ پروفیسر
ڈاکٹر نیلم ظاہر
ایم بی بی ایس
ایف سی پی ایس گائناکالوجی اینڈ اوبس (گولڈ میڈلسٹ)
ACRM (بانجھ پن، بے اولاد)
اسسٹنٹ پروفیسر گائنی بی وارڈ سیدو ٹیچنگ ہسپتال

Address

Kings International Hospital Saidu Sharif Swat
Mingora
10130

Telephone

+923129884222

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Assistant Professor Dr Neelum Zahir gynaecology & obs clinic posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Category

Nearby clinics


Other Doctors in Mingora

Show All